150,000 سے زائد مظاہرین نے اسرائیل کی غزہ میں جاری جارحیت اور ڈچ حکومت کی خاموشی کے خلاف طاقتور احتجاج کیا، جس میں انسانی حقوق، انصاف اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی کا مطالبہ کیا گیا۔
ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں اتوار کے روز ایک تاریخی مظاہرہ دیکھنے میں آیا، جہاں 150,000 سے زائد افراد نے اسرائیل کی غزہ میں جاری فوجی جارحیت کے خلاف اور ڈچ حکومت کی بے عملی پر شدید احتجاج کیا۔ اس عوامی مظاہرے کو یورپ میں فلسطین سے یکجہتی کے سب سے بڑے عوامی اجتماعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔
مظاہرے میں شریک افراد نے سرخ رنگ کے کپڑے پہن کر ایک علامتی "سرخ لکیر” بنائی، جسے فلسطینی عوام کے خلاف جنگی جرائم کے خلاف مزاحمت اور حد سے گزر جانے والے ظلم کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا۔ منتظمین کے مطابق یہ بصری پیغام عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش تھی۔
احتجاجی مظاہرین نے نگراں حکومت پر شدید تنقید کی کہ وہ اسرائیلی مظالم پر کوئی مضبوط مؤقف اپنانے میں ناکام رہی ہے۔ 3 جون کو حکومتی تحلیل کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے اس تنقید کو مزید تقویت دی۔
اگرچہ ہالینڈ کے نگراں وزیر خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعاون پر نظر ثانی کرے، مظاہرین کے مطابق یہ بیانات کافی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں پر محض سفارتی بیانات نہیں، بلکہ عملی اقدامات درکار ہیں
ریلی میں اٹھائے گئے نعروں اور بینرز میں "غزہ کے ساتھ یکجہتی”، "فوری جنگ بندی”، اور "انسانی حقوق کی بحالی” کے مطالبات نمایاں تھے۔ مظاہرین نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنائے
مظاہرین نے ملک میں دائیں بازو کی سیاست اور اسرائیل نواز بیانیے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ خاص طور پر گیرٹ وائلڈرز جیسے سیاستدان، جو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور اسلام مخالف بیان بازی کے لیے جانے جاتے ہیں، اس تنقید کا مرکز رہے۔ عوامی حلقے انہیں ایک ایسے بیانیے کے پرچارک کے طور پر دیکھتے ہیں جو انصاف اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے منافی ہے۔
اتوار کا احتجاج صرف اسرائیل مخالف نہیں تھا، بلکہ یہ ایک وسیع تر مطالبے کا عکاس تھا — کہ ہالینڈ کی خارجہ پالیسی انسانی حقوق، انصاف، اور اقوام متحدہ کے چارٹر جیسے عالمی اصولوں پر مبنی ہو۔ شرکاء نے واضح کیا کہ وہ ایسی پالیسی نہیں چاہتے جو طاقتور ممالک کی خوشنودی پر مبنی ہو، بلکہ وہ اصولوں پر کھڑی پالیسی چاہتے ہیں۔