لندن — برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل ستمبر تک غزہ میں جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوتا اور امن عمل کی طرف پیش رفت نہیں کرتا تو برطانیہ اس وقت فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لے گا۔ سٹارمر کا یہ بیان نہ صرف برطانیہ کی پالیسی میں ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اسرائیل کے لیے ایک سنگین سفارتی چیلنج بھی بن کر سامنے آیا ہے۔
وزیراعظم سٹارمر نے اپنی کابینہ کے ایک خصوصی اجلاس میں کہا کہ "اگر اسرائیل نے غزہ میں انسانی بحران کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے، اور امن کے لیے واضح عزم ظاہر نہ کیا، تو برطانیہ ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔”
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرانس پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر فلسطین کو تسلیم کر لے گا۔ یوں اگر برطانیہ بھی یہی اقدام کرتا ہے تو یہ اسرائیل پر مغربی دباؤ کو کئی گنا بڑھا دے گا۔
سٹارمر کی شرائط کیا ہیں؟
وزیراعظم نے وضاحت کی کہ اسرائیل کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اس اقدام کو روک سکے، بشرطیکہ وہ:
- غزہ میں فوری جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کرے،
- مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کو مسترد کرے،
- اور دو ریاستی حل پر حقیقی امن عمل کا عزم کرے۔
سٹارمر نے اس بات کو دہراتے ہوئے واضح کیا کہ "حماس اور اسرائیل میں کوئی مساوات نہیں کی جا سکتی، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اسرائیل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ازالہ کرے اور غزہ میں عام شہریوں کی مدد کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ حماس سے برطانیہ کے مطالبات بدستور قائم ہیں، جن میں شامل ہیں:
- تمام یرغمالیوں کی رہائی،
- مستقل جنگ بندی،
- غزہ کی حکومت میں حماس کے کردار کا خاتمہ،
- اور تنظیم کا غیر مسلح ہونا۔
یورپ سے یکجہتی، اسرائیل پر دباؤ
ذرائع کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی سٹارمر پر زور دیا کہ وہ اس اقدام میں قیادت کریں۔ برطانوی لیبر پارٹی کے کئی اراکینِ پارلیمان نے وزیراعظم پر دباؤ بڑھایا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ کن قدم اٹھائیں۔
یہ ممکنہ فیصلہ مغربی دنیا میں ایک علامتی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، کیونکہ برطانیہ اسرائیل کا قریبی اتحادی تصور کیا جاتا ہے۔ اگر لندن فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتا ہے، تو یہ باقی مغربی ممالک کو بھی اس راہ پر ڈال سکتا ہے۔
یورپی قیادت کا نیا امن منصوبہ
سٹارمر نے اپنی کابینہ کو گرمیوں کی تعطیلات سے واپس بلا لیا تاکہ دوسرے یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک نیا امن منصوبہ ترتیب دیا جا سکے، جو نہ صرف اسرائیل و فلسطین کے درمیان سیاسی عمل کو بحال کرے بلکہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو بھی ممکن بنائے۔