لاہور کی مقامہ عدالت نے مبینہ طور پر ’قابلِ اعتراض‘ نجی پارٹی منعقد کرنے پر گرفتار خواجہ سراؤں کے خلاف درج مقدمہ کو خارج کر دیا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ریکارڈ پر ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جو ملزمان کو مبینہ جرائم کے ارتکاب سے منسلک کریں، لہٰذا گرفتار ملزمان کے خلاف مقدمے کو خارج کیا جاتا ہے، حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ملزمان کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کو مسترد اور عدالت میں موجود ملزمان کو اس مقدمے سے بری کیا جاتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ چھاپے کے دوران کوئی گواہ شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کا بیان قلمبند کیا گیا۔۔ نجی جگہ پر چھاپہ مارنے کا اجازت نامہ بھی ریکارڈ کے ساتھ منسلک نہیں، بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ ملزمان کو جعلی اور گھڑی ہوئی باتوں کی بنیاد پر مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔۔
واضح رہے پنجاب پولیس نے لاہور میں منعقدہ قابل اعتراض نجی پارٹی کے دوران فحاشی کو فروغ دینے کے الزام پر متعدد خواجہ سراؤں کو گرفتار کیا تھا۔ یہ نجی پارٹی یکم اگست کو منعقد ہوئی۔ سوشل میڈیا پر پارٹی کی تصاویر اور ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے متعدد افراد کے خلاب مقدمہ درج کیا تھا۔۔
ایف آئی آر کے مطابق یکم اگست کو سامنے آنے والی ویڈیوز میں فحش مواد موجود ہے، جس کے باعث عوامی ردعمل سامنے آیا اور پولیس نے فوری کارروائی کی۔
یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں نصیر آباد پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا، جس میں 50 سے 60 خواجہ سراؤں کے گروہ کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 292 (فحش مواد کی فروخت)، 292-اے (فحش مواد کی اشاعت/تشہیر) اور 294 (عوامی مقامات پر فحش حرکات) کے تحت، نیز ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی دفعہ 6 کے تحت نامزد کیا گیا ہے۔
گرفتاریوں کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (آپریشنز) لاہور فیصل کامران نے کہا کہ پارٹی یا فوٹوشوٹ کے نام پر فحاشی پھیلانا سنگین قانونی جرم ہے، غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات کسی صورت برداشت نہیں کی جائیں گی، واقعے میں ملوث تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
فیصل کامران نے مزید بتایا کہ ممنوعہ فلم جوائے لینڈ کی اسکریننگ بھی شہر میں روک دی گئی، جس میں ایک خواجہ سرا کی محبت کی کہانی دکھائی گئی ہے، اسلام اور قانون کے منافی کسی بھی سرگرمی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔