سپریم کورٹ نےاسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمودجہانگیری کو کام سےروکنے کا ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا۔کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم کورٹ آئینی بینچ سے ریلیف مل گیا ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج کو کام سے روکنے کا حکم معطل کردیا گیا۔ اٹارنی جنرل آفس اور ہائی کورٹ میں درخواست گزار میاں داؤد کو منگل کو مزید سماعت کیلئے نوٹس جاری کر دیئے گئے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کے وکیل منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا حال ہی میں جسٹس جمال خان کا فیصلہ ہے کہ ایک جج دوسرے جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا اُس کیس کے حقائق مختلف تھے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں تاہم سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی کام سے روکنے کا حکم معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ۔ جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیئے ایک سوال پر فریقین کے وکلا تیاری کر کے آئیں ۔ کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس جہانگیری کے خلاف درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات موجود تھے ۔ اس کے باوجود رٹ پٹیشن پر نمبر کیسے لگ گیا؟
جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس بابر ستار ، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق بھی جسٹس طارق محمود جہانگیری کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچے۔ ہائی کورٹ ججز سائلین گیٹ سے داخل ہوئے تو سیکیورٹی پر تعینات پولیس نے انہیں سلیوٹ کیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے میڈیا کے سوالات پر کہا حیرت کی بات ہے 34 سال بعد ڈگری منسوخ کر رہے ہیں ۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ۔ ایک صحافی نے پوچھا کچھ لوگوں کادعویٰ ہےآپ کا استعفی آ رہا ہے؟جسٹس جہانگیری نےجواب دیا اللہ خیر کرے گا۔
یاد رہے اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود کو عدالتی کام سے روکنے کا حکم جاری کیا تھا، یہ حکم ان کی بطور جج تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست پر ڈویژن بنچ نے جاری کیا تھا۔