بیجنگ : چین نے امریکا کے مجوزہ ‘گولڈن ڈوم’ جیسے عالمی دفاعی نظام کا ایک فعال پروٹوٹائپ تعینات کر دیا ہےجو بیک وقت دنیا بھر سے داغے گئے ایک ہزار میزائلوں کو ٹریک کر سکتا ہے۔
پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کے تحت تیار اور آزمائش کے بعد تعینات کیے گئے اس نظام کو "ڈسٹری بیوٹڈ ارلی وارننگ ڈیٹیکشن بگ ڈیٹا پلیٹ فارم” کا نام دیا گیا ہے۔
اگرچہ یہ ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن اس کے ڈویلپرز کا کہنا ہے کہ یہ دنیا میں کہیں سے بھی چین کی طرف داغے گئے ایک ہزار میزائلوں کی بیک وقت نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ سسٹم خلا، سمندر، فضاء اور زمین پر موجود مختلف سینسرز سے معلومات اکٹھی کرتا ہے اور انہیں فوری طور پر تجزیے کے بعد ایک مربوط شکل میں کمانڈ ہیڈکوارٹرز تک پہنچاتا ہے۔
اس پلیٹ فارم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف ہدف کے راستے، ہتھیار کی قسم اور اس کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتہ لگا سکتا ہے بلکہ مختلف ادوار میں نصب، مختلف کمپنیوں کے تیار کردہ اور مختلف فارمیٹس میں موجود ڈیٹا کو بھی ایک ساتھ پروسیس کر سکتا ہے۔ اس کے ذریعے بکھرے ہوئے اور غیر ہم آہنگ ڈیٹا کو یکجا کر کے ایک عالمی دفاعی تصویر میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
چینی ماہرین کے مطابق اس نظام میں جدید پروٹوکول (QUIC) استعمال کیا گیا ہے جو محدود بینڈوڈتھ یا مداخلت کی صورت میں بھی تیز رفتار اور محفوظ ڈیٹا ٹرانسمیشن ممکن بناتا ہے۔ اکٹھا کیا گیا ڈیٹا مستقبل میں مصنوعی ذہانت (AI) کی تربیت کے لیے بھی استعمال ہوگا تاکہ نظام کی کارکردگی مزید بہتر ہو سکے۔
اس کے برعکس امریکا کا ’’گولڈن ڈوم‘‘ منصوبہ، جس کا مقصد زمین، سمندر، فضاء اور خلا پر محیط ایک مربوط میزائل ڈیفنس نیٹ ورک بنانا ہے، ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کی بنیادی تکنیکی ساخت تک واضح نہیں ہو سکی۔
امریکی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج میزائلوں کا نہیں بلکہ ڈیٹا فلو کا ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ ڈیلی کے مطابق دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اکثر امریکا نئی دفاعی ٹیکنالوجی کا تصور پیش کرتا ہے مگر اسے عملی جامہ چین پہناتا ہے۔ چین کی یہ پیش رفت اس کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیتوں اور امریکی دفاعی صنعت کو درپیش مشکلات کے تناظر میں ایک اہم سنگ میل قرار دی جا رہی ہے