اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر براہ راست سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی، سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔
بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
ایڈووکیٹ حامد خان کے دلائل
سماعت کے آغاز پر حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ 26 ویں ترمیم رات کے وقت پارلیمنٹ میں لائی گئی، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ پہلے بنچ کی تشکیل پر معاونت کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اچھا ہوا یا برا، ان میرٹس کو ابھی رہنے دیں۔
حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ میں میرٹس پر نہیں جارہا، صرف کچھ حقائق بتارہا ہوں، ہم اس کیس کی فل کورٹ میں ہی سماعت چاہتے ہیں، فل کورٹ وہ والی جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی، اس حساب سے 16 رکنی بنچ بنے گا، موجودہ بنچ کے تمام ججز بھی اس وقت موجود تھے، استدعا ہے باقی اس وقت کے 8 ججزکو بھی شامل کیا جائے۔
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ متفق ہیں اس وقت 26 ویں ترمیم کا حصہ ہے یا نہیں؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ اگر فل کورٹ اس ترمیم کو کالعدم قراردے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔
جسٹس امین الدین نے کہا ہے کہ جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے ناں؟ اس وقت آپ دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں گے، ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلاء بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔
ابھی تک ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا: جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بنچ کے سامنے آئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تک اس ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے حامد خان کو ہدایت دی کہ مرکزی کیس کو نہیں فی الحال سن رہے، فی الحال فُل کورٹ کہ درخواست پر دلائل دیں، وکیل حامدخان نے مؤقف اپنایا کہ فی الحال بات نہیں کررہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نکات کیسے آئین کے خلاف ہیں؟
وکیل نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، آئینی ترمیم کے بعد بنچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس سے پہلی بار واپس لے لیا گیا ہے، آئینی ترمیم میں بنچز بنانے کے طریقہ کار کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔
حامد خان نے کہا کہ آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا، آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن پر اثر پڑا، 26 ویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے ہیں۔
وکیل حامد خان نے جوڈیشل کمیشن کے اراکین کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بنچ نے کیس سننا ہے، ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟
جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں: جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، 26 ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہو سکتا؟عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ حامد خان صاحب مگر آپ نے اپنی استدعا میں یہ مانگا ہی نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟
حامد خان نے استدلال کیا کہ جی بالکل آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے، جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بنچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ آئینی بنچ کا تصور آپ نے 26 ویں ترمیم سے دیا ہے۔
آئینی بنچ کا تصور پارلیمان نے دیا، ہم پر نہ ڈالیں: جسٹس مندوخیل
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نہیں دیا پارلیمان نے دیا ہم پر نہ ڈالیں، حامد خان نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل 191 اے کو بھول جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ بھول جائیں تو پھرآئینی بنچ ہی ختم پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا، اگر اس آئینی بنچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟
بعدازاں ایڈووکیٹ حامد خان کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز آئینی بنچ نے فریقین کو سننے کے بعد کیس کی سماعت لائیو سٹریمنگ کا حکم دیا تھا، 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر پہلی سماعت 27 جنوری 2025 کو ہوئی تھی۔