دوشنبے (تاجکستان): روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نئے جوہری ہتھیاروں کے معاہدے میں وارہیڈ کی حد میں توسیع سے انکار کرتا ہے تو یہ ماسکو کے لیے کوئی بڑا معاملہ نہیں ہوگا۔ تاہم، انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کے کنٹرول کا ڈھانچہ مکمل طور پر ختم ہو گیا تو یہ "افسوسناک” بات ہوگی۔
پوٹن نے تاجکستان میں ایک سربراہی اجلاس کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہتھیاروں کی دوڑ پہلے ہی جاری ہے” اور روس نئی نسل کے اسٹریٹجک ہتھیاروں کی تیاری اور تجربات میں مصروف ہے۔
روسی صدر نے مزید کہا کہ ماسکو نیو اسٹارٹ (New START) معاہدے میں طے شدہ وارہیڈ کی حد میں رضاکارانہ توسیع کے لیے تیار ہے، جو اگلے سال فروری میں ختم ہو رہی ہے — بشرطیکہ امریکہ بھی اس پر راضی ہو۔ تاہم، واشنگٹن نے تاحال روس کی اس تجویز پر باضابطہ ردعمل نہیں دیا۔
پوٹن نے کہا "کیا یہ چند ماہ توسیع کے فیصلے کے لیے کافی ہوں گے؟ میرے خیال میں ہاں، اگر نیک نیتی سے مذاکرات ہوں۔ اور اگر امریکی فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں اس کی ضرورت نہیں، تو یہ ہمارے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔”
انہوں نے واضح کیا کہ روس ہتھیاروں کے کنٹرول پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب امریکہ کے لیے یہ "قابلِ قبول اور مفید” ہو۔ بصورت دیگر، پوتن کے مطابق، اسٹریٹجک جارحانہ ہتھیاروں کے توازن کے لیے کوئی فریم ورک باقی نہیں رہے گا۔
پوٹن نے یہ بھی اشارہ دیا کہ دوسرے ممالک — جن کا انہوں نے نام نہیں لیا — مستقبل میں جوہری تجربات کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، اگر ایسا ہوا تو روس بھی جوابی تجربے کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ سیکیورٹی کے لحاظ سے مفید ہو سکتا ہے، لیکن یہ "ہتھیاروں کی دوڑ کے خاتمے کے لیے نقصان دہ” ثابت ہوگا۔
انہوں نے آخر میں کہا "نئے اسٹارٹ معاہدے کو کم از کم ایک سال کے لیے بڑھانا ایک سمجھدار قدم ہوگا۔”
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق، اگر کسی ایک ملک نے جوہری تجربات دوبارہ شروع کیے تو دیگر جوہری طاقتیں بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو سکتی ہیں، جس سے عالمی جیو پولیٹیکل تناؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔