استنبول — پاکستان اور افغانستان کے درمیان تین روزہ مذاکرات کے بعد ترکی کے شہر استنبول میں جاری امن مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔ دونوں ممالک کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے منگل کو ایک دوسرے پر معاہدے تک نہ پہنچنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ ترکی کی ثالثی کوششیں جاری ہیں۔
یہ مذاکرات ان سفارتی کوششوں کا حصہ ہیں جو اسلام آباد اور کابل کے درمیان سرحد پار حملوں اور عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے شروع کی گئیں۔ یہ تنازعہ طالبان کے چار سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں گہرے تناؤ کا باعث بن چکا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، ترک حکام اور دیگر بین الاقوامی ثالثین دوحہ میں 19 اکتوبر کو طے پانے والی جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو سرحدی جھڑپوں کے بعد عمل میں آئی تھی جن میں دونوں جانب درجنوں فوجی، عسکریت پسند اور عام شہری مارے گئے تھے۔
پاکستانی سیکیورٹی حکام کے مطابق مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوئے جب کابل کی قیادت نے اسلام آباد کے ان "جائز مطالبات” کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان وفد فیصلوں کے لیے مسلسل کابل سے رہنمائی لیتا رہا، جس سے مذاکرات کی رفتار متاثر ہوئی۔ تاہم ترک حکام تعطل ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ مذاکرات کا اگلا دور جلد شروع کیا جا سکے۔
افغان میڈیا آر ٹی اے نے بھی پاکستان پر الزام لگایا کہ اسلام آباد کی جانب سے “تعمیری مذاکرات کی فضا” قائم نہیں کی گئی۔
دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو اس بحران کے جلد حل میں مدد کرنے کا وعدہ کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، افغانستان کی حکمت عملی سفارتی عمل کو طول دینے اور دو طرفہ مسائل کو مشروط کرنے پر مبنی نظر آتی ہے، جبکہ اسلام آباد چاہتا ہے کہ کابل پاکستانی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف واضح اور قابلِ تصدیق اقدامات کرے۔
اسلام آباد میں سیکیورٹی تجزیہ کار سید محمد علی نے کہا کہ افغان فریق کی سستی پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج نے افغانستان کے اندر مبینہ ٹی ٹی پی ٹھکانوں پر کارروائی کی تھی، جس کے نتیجے میں سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔ بعد ازاں قطر نے جنگ بندی کی ثالثی کی جس پر فریقین اب تک عمل کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تمام سرحدی گزرگاہیں دو ہفتوں سے زائد عرصے سے بند ہیں، جس کے باعث سامان بردار ٹرک پھنسے ہوئے ہیں اور اہم تجارتی راستے کھولنے کے لیے مذاکراتی پیش رفت کا انتظار ہے۔

