غزہ: اسرائیلی حمایت سے چلنی والی فلسطینی تنظیم ابو شباب ملیشیا کا نیا سربراہ غسان الدہینی کو بنا دیا گیا نئے سربراہ غسان الدہینی نے کہا ہے کہ وہ حماس کے دباؤ سے خوفزدہ نہیں اور تنظیم کے خلاف لڑائی مزید شدت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ 39 سالہ غسان الدہینی بدوین قبیلے الترابین سے تعلق رکھتے ہیں، جو ابو شباب ملیشیا جیسے مسلح گروہوں کے قبائلی ڈھانچے سے مماثلت رکھتا ہے۔ وہ پہلے اسی ملیشیا کے عسکری ونگ کی کمان سنبھال چکے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، ملیشیا میں شمولیت سے قبل غسان الدہینی فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں میں افسر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے، لیکن 2007 میں غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد وہ اس ادارے سے الگ ہو گئے۔ بعد ازاں وہ جیش الاسلام سے منسلک ہوئے، جس کے متعلق دعویٰ کیا جاتا رہا کہ اس کے داعش سے روابط موجود تھے۔ اسی دوران حماس نے انہیں گرفتار بھی کیا اور انہیں مطلوب افراد کی فہرست میں شامل رکھا۔
ایک انٹرویو میں غسان الدہینی نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا "میں حماس کے خلاف لڑ رہا ہوں، تو پھر میں ان سے کیوں ڈروں؟ میں ان کے افراد کو گرفتار کرتا ہوں، ان کا اسلحہ ضبط کرتا ہوں، انہیں پیچھے دھکیلتا ہوں۔ میں وہی کر رہا ہوں جس کے وہ مستحق ہیں، عوام اور آزاد لوگوں کے نام پر۔”
ان کے بیان کے بعد ملیشیا کے فیس بک پیج پر جنگجوؤں کی پریڈ اور تربیتی ویڈیو جاری کی گئی، جس میں ال دہنی عسکری وردی میں جنگجوؤں کا معائنہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور ویڈیو میں جنگجو ابو شباب کی یاد میں دعا کرتے نظر آئے جبکہ حماس سے آزادی تک لڑائی جاری رکھنے اور نئے بھرتی ہونے والوں کو شامل ہونے کی دعوت بھی دی گئی۔
غسان الدہینی نے کہا کہ ابو شباب کی موت ایک بڑا نقصان ہے، لیکن گروپ کا عسکری مشن نہیں رکے گا۔ "ان کی غیر موجودگی تکلیف دہ ہے مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں رکے گی۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ ملیشیا اپنے زیر اثر علاقے میں ایک Non‑Military Safe Zone قائم کرنا چاہتی ہے، جو ان کے بقول "ان شہریوں کے لیے ہوگا جو امن پر یقین رکھتے ہیں”۔

