دوحہ — شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے کہا ہے کہ دمشق اسرائیل کے ساتھ 1974ء کے فائر بندی معاہدے کی مکمل پاسداری چاہتا ہے، تاہم اسرائیلی پالیسی اور سرحدی اقدامات شام کو شدید سیکیورٹی خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیل کی جانب سے جنوبی شام میں ’حفاظتی زون‘ قائم کرنے کی کوشش نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کو نئے اور بڑے تنازع کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
دوحہ فورم 2025 کے ابتدائی روز خطاب کرتے ہوئے احمد الشرع نے الزام لگایا کہ اسرائیل غزہ پر حملوں کے بعد اپنی عسکری کارروائیوں کی وجہ دیگر ممالک پر تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل نے گزشتہ ایک سال کے دوران شام پر 1,000 سے زائد فضائی حملے اور 400 سے زیادہ زمینی دراندازیاں کیں، جو خطے میں بڑی جنگ کا راستہ ہموار کرسکتی ہیں۔
عبوری صدر نے کہا کہ اسرائیل اپنی عسکری سرگرمیوں کو ’’سیکیورٹی خطرات‘‘ کا نام دے کر جائز ٹھہراتا ہے اور 7 اکتوبر کے واقعات کو ہر جارحانہ اقدام کا جواز بنا لیتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ شام نے 8 دسمبر 2024 کے بعد سے اسرائیل کو مثبت پیغامات بھیجے اور خطے میں امن کے لیے لچک دکھائی، مگر جواب فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں کی صورت میں ملا۔
احمد الشرع نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل 1974ء کے معاہدے سے انحراف کرے یا بفر زون جیسے متبادل اقدامات پر زور دے تو اس کے ’’خطرناک نتائج‘‘ نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ شام کے جنوبی علاقے میں فوج کی غیر موجودگی کی صورت میں سیکیورٹی کیسے یقینی بنائی جائے گی؟
ان کا کہنا تھا کہ شام اس مسئلے پر متعدد ممالک — جن میں امریکا بھی شامل ہے — سے رابطے میں ہے، اور عالمی سطح پر یہ موقف تقویت پا رہا ہے کہ اسرائیل کو 8 دسمبر 2024 سے قبل کی پوزیشن پر واپس جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے سیکیورٹی خدشات منطقی اصولوں پر حل ہونے چاہئیں۔
عبوری صدر نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران شام نے اپنے علاقائی و عالمی تعلقات نہ صرف بحال کیے بلکہ نئے اعتماد اور سیاسی استحکام کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔ ان کے مطابق دمشق اب ایک ’’مسئلہ پیدا کرنے والی ریاست‘‘ کے بجائے ’’امید پیدا کرنے والی ریاست‘‘ کے طور پر اپنا کردار مستحکم کر رہا ہے۔

