غزہ — اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے بعد جنوبی غزہ میں بے گھر ہونے والے ہزاروں فلسطینی اپنے گھروں کی جانب واپس جانا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مارچ 2025 کے بعد علاقے میں لڑائی مکمل طور پر رکی ہے۔چھ ماہ بعد پہلی مرتبہ لڑائی رکی، اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا مکمل، ساحلی شاہراہ پر واپسی کا سفر شروع
جمعے کے روز اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) کے غزہ کی پٹی سے جزوی انخلا اور نئی تعیناتی لائنوں پر واپسی کے بعد جنگ بندی کا آغاز ہوا۔ اس کے فوراً بعد فلسطینی خاندانوں کی بڑی تعداد نے ساحلی سڑک کے راستے شمالی غزہ کے شہروں کی جانب پیدل سفر شروع کیا۔
شہریوں کی واپسی — امید اور غیر یقینی کا امتزاج
غزہ کے جنوبی شہر رفح اور خان یونس کے عارضی کیمپوں میں موجود ہزاروں افراد نے سامان سمیٹنا شروع کیا اور اپنے تباہ شدہ گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔ مقامی ذرائع کے مطابق، سڑکوں پر شہریوں کے قافلے، بائیکس، رکشے اور ٹرکوں کی طویل قطاریں دیکھنے میں آئیں۔
ایک فلسطینی خاتون نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا“ہم جانتے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں، مگر چھ ماہ بعد پہلی بار اپنے گھر واپس جانا ایک خواب جیسا لگ رہا ہے۔”
اسرائیلی افواج کا انخلا اور نیا فوجی نقشہ
جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی کے 53 فیصد علاقے سے مرحلہ وار واپسی مکمل کر لی ہے۔
اب IDF کا کنٹرول غزہ کے بیرونی علاقوں، رفح کے اطراف، اور شمالی سرحدی زون تک محدود رہے گا۔ اسرائیلی فوج اور حماس دونوں نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ فوجی تعیناتی علاقوں کے قریب نہ جائیں۔
72 گھنٹوں میں یرغمالیوں کی رہائی متوقع
معاہدے کے مطابق، جنگ بندی کے آغاز سے 72 گھنٹے کے اندر حماس کو تمام زندہ اور مردہ یرغمالیوں کی فہرست فراہم کر کے رہائی عمل میں لانا ہوگی۔
امریکی ثالث سٹیو وٹکوف نے بیان میں تصدیق کی کہ:“IDF نے اپنی تعیناتی مکمل کر لی ہے اور معاہدے کی گھڑی شروع ہو گئی ہے — اب ذمہ داری حماس پر ہے کہ وہ انسانی وعدوں کو پورا کرے۔”
غزہ میں انسانی بحران کی بحالی کا آغاز
عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (OCHA) نے جنگ بندی کے بعد فوری طور پر ادویات، خوراک، اور صاف پانی کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ میتھیو ہولنگزورتھ نے کہا کہ “یہ وقفہ زندگی بچانے کے لیے اہم ہے، لیکن مستقل امن کے لیے مزید سیاسی جرات کی ضرورت ہے۔”