متحدہ عرب امارات نے پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا درخواستوں کی جانچ کے طریقہ کار میں سختی کر دی ہے، جس کے باعث مسافروں کی درخواستوں کی مسترد ہونے کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔
1. مالیاتی تقاضے مزید سخت
- پاکستانی شہریوں کو اب کم از کم 10 لاکھ روپے کا بینک اسٹیٹمنٹ فراہم کرنا ہوگا۔
- واپسی کے تصدیق شدہ ٹکٹ اور ہوٹل بکنگ جیسی اضافی شرائط نے درخواست دہندگان کے اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے۔
2. درخواستوں کی مسترد ہونے کی بلند شرح
- روزانہ کی بنیاد پر 2000 درخواستوں میں سے 99 فیصد تک مسترد کی جا رہی ہیں، خاص طور پر لاہور جیسے شہروں سے۔
- مسترد درخواستوں کی وجہ سے فی فرد کو 1,500 سے 2,000 درہم تک کا مالی نقصان ہو رہا ہے۔
نئی ویزا پالیسی سے کاروباری، تعلیمی، اور روزگار کے مواقع کے لیے سفر کرنے والے افراد ان پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان (TAAP) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کے حکام سے سفارتی مذاکرات کرے تاکہ ان پابندیوں کو ختم کیا جا سکے۔ٹریول ایجنسٹس تنظیم نے واضح کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور مسافروں کی سہولت کے لیے ایک متوازن حل ضروری ہے۔

