نکولس مادورو نے تیسری چھ سالہ مدت کے لیے وینزویلا کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے، جس سے ان کی صدارت 2031 تک بڑھ جائے گی۔ یہ حکمرانی متنازع انتخابات، اپوزیشن پر کریک ڈاؤن، اور بین الاقوامی مذمت کے پس منظر میں جاری ہے۔
مادورو کی جیت کا اعلان ان کی یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا نے کیا، جبکہ حزب اختلاف کے امیدوار ایڈمنڈو گونزالیز نے انتخابی دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے۔اپوزیشن نے 80% الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی رپورٹیں پیش کیں، جن میں گونزالیز کے لیے مدورو کے دوگنے ووٹ ظاہر کیے گئے تھے۔بین الاقوامی مبصرین نے اپوزیشن کے دعووں کو قابل اعتماد قرار دیا، لیکن وینزویلا کی ہائی کورٹ نے مدورو کی جیت کی توثیق کر دی۔
متنازع انتخابات کے بعد ملک گیر مظاہرے ہوئے، جنہیں سیکورٹی فورسز نے کچل دیا۔رپورٹوں کے مطابق، تشدد میں 20 سے زائد افراد ہلاک اور 2000 سے زیادہ مظاہرین گرفتار ہوئے۔اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچاڈو کو مختصر طور پر حراست میں لیا گیا، اور ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ حکومتی بیانیے کے مطابق ویڈیوز ریکارڈ کریں۔
امریکہ اور یورپی یونین نے مادورو کی صدارت کو دھاندلی اور جبر کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپوزیشن رہنماؤں کی حمایت کرتے ہوئے انہیں "آزادی کے جنگجو” کہا۔کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو، جو مدورو کے اتحادی ہیں، نے سیاسی قیدیوں کے معاملے پر افتتاحی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا۔

