تحریر: ریحان طاہر

خزاں سے جاڑے کے درمیانی عرصے میں ایک چھوٹا سا مگر مؤثر عمل ہے جو اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے: درختوں پر چونا لگانا۔ یہ صدیوں پرانی باغبانی کی روایت صرف ایک روایتی عمل نہیں بلکہ ایک سائنسی حقیقت پر مبنی حفاظتی طریقہ ہے۔
چونا، جب درخت کے تنے پر لگایا جاتا ہے، تو یہ ایک قدرتی ڈھال کا کام کرتا ہے۔ یہ سخت سردی، دھوپ کی تپش، فنگس، کیڑوں اور دیگر بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ چونے کی تہہ ایک الکلی ماحول بناتی ہے جو بیماریوں اور حشرات کو پنپنے نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ، یہ سورج کی شعاعوں کو منعکس کر کے درخت کے تنے کو پھٹنے سے بچاتا ہے۔
چونا لگانے کا بہترین وقت اکتوبر سے دسمبر کے درمیان ہوتا ہے، جب درخت اپنے غیر فعال (dormant) مرحلے میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران چونا سردیوں بھر درخت کی حفاظت کرتا ہے۔
چونا لگانے کے لیے اسے پانی میں گھول کر گاڑھا محلول بنائیں اور ایک برش کی مدد سے درخت کے نچلے تنے پر لگائیں، خاص طور پر اُس جگہ جہاں کیڑے یا بیماریاں حملہ آور ہو سکتی ہیں۔
جیسے ہی گرمی کا موسم آتا ہے، درختوں کی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پھل پکنے لگتے ہیں اور وہ اقسام سامنے آتی ہیں جنہیں پہلے کبھی ہمارے خطے میں اگانے کا سوچا بھی نہیں گیا تھا۔
اب پاکستان میں بھی کچھ نئی اور منفرد اقسام کو آزمایا جا رہا ہے، جیسے
ڈریگن فروٹ جو اب جنوبی علاقوں میں پنپ رہاہے۔
بلیک ساپوٹے جسے “چاکلیٹ پڈنگ فروٹ” بھی کہا جاتا ہے،جاپانی الوچہ ، میریکل بیری جو ذائقے کی حس کو عارضی طور پر بدل دیتاہے ۔
یہ سب پھل گرمی کے موسم میں خاص دیکھ بھال چاہتے ہیں—جیسے کہ زمین کو نمی برقرار رکھنے کے لیے ملچ دینا، قطرہ قطرہ آبپاشی، اور درختوں کی شاخوں کو اس طرح تراشنا کہ پھل سورج کی تیز روشنی سے جھلس نہ جائیں۔ پھول نکلنے اور پھل بننے کے دوران پتوں پر ایسے محلول چھڑکنا جو کیلشیم اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوں، پھل کی کوالٹی کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔میرے مطابق
ہر درخت کے پیچھے ایک انسانی کہانی ہوتی ہے۔ ایک کسان جو صبح سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتا ہے، ایک بچہ جو آم توڑنے کے لیے درخت پر چڑھتا ہے، یا ایک بزرگ جو ابھی تک جون کی راتوں میں سنترے کے پھولوں کی خوشبو کو یاد کرتا ہے۔یہ سب فطرت سے جڑے وہ انمول اسباق ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں رنگ قائم و دائم ہیں – بلاشبہ
درخت صرف پھل پیدا کرنے والی مشینیں نہیں بلکہ یادوں اور نسلوں کا تسلسل ہیں۔ درخت کی دیکھ بھال—چاہے سردیوں میں چونا لگانا ہو یا گرمیوں میں پانی دینا—ایک خاموش اُمید کا اظہار ہے
ریحان طاہر ۔ ماحولیاتی سکالر اور مسلم ہینڈز میں گلوبل کلائمیٹ ایکشن پروگرام کے سربراہ ہیں ۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں شعبہ ماحولیات کے وزٹنگ فیکلٹی ممبر کے طور پر درس و تدریس سے منسلک ہیں

