پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے، تاکہ صحافیوں کی قربانیوں، آزادی صحافت کو درپیش چیلنجز اور سچ کی تلاش میں دی جانے والی جانوں کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔
اس دن کا آغاز 1993ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظوری سے ہوا۔اس دن کا مقصد صحافتی آزادی، اظہار رائے کے تحفظ اور صحافیوں کو درپیش خطرات کو اجاگر کرنا ہے۔
پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے۔پابندیوں، جبر، قید، اور کوڑوں کے سائے میں جنم لینے والی موجودہ آزادی کسی عطا نہیں بلکہ صحافیوں کی برسوں کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔کئی صحافی تشدد، اسیری اور جانی قربانیوں کے بعد آج بھی سچ کی راہ پر گامزن ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کے مطابق، 1992ء سے 2025ء تک 1400 سے زائد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔متعدد صحافی آج بھی زندانوں میں قید ہیں، صرف اس لیے کہ وہ عوام کو حقیقت سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم شہبازشریف کا یوم آزادی صحافت کے موقع پر کہناتھاکہ میڈیا کارکنان نے دنیا تک حقائق پہنچانے کی جدوجہد میں عظیم قربانیاں دیں۔ ہمارا آئین اظہار رائے کی مکمل ضمانت دیتا ہے، مگر میڈیا کو جھوٹ، پروپیگنڈے اور بیرونی ایجنڈوں کا ہتھیار نہیں بننے دینا چاہیے۔”
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتو گوتریس کاکہناتھاکہ "صحافیوں پر حملے، غلط معلومات کا پھیلاؤ اور نفرت انگیز بیانیہ آزادی صحافت کے لیے عالمی خطرہ ہیں۔ ہم سب کو صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔”