یورپی یونین نے برسوں سے خانہ جنگی کا شکار شام پر عائد اقتصادی پابندیوں میں مشروط نرمی کا اعلان کیا ہے، تاکہ ملک میں بحالی کی کوششوں کو سہارا دیا جا سکے، مگر سابق صدر بشارالاسد سے منسلک عناصر پر دباؤ برقرار رکھا جائے گا۔
پالیسی کی تبدیلی کی بنیادیں
یہ فیصلہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد سامنے آیا، جس میں خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالس نے کہا”زندگی بچانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ شام کو دوبارہ تعمیر کرنے کا موقع دینا وقت کی ضرورت ہے، تاکہ ہم ایک اور انسانی بحران سے بچ سکیں۔”
شامی قیادت میں تبدیلی کا اثر
یورپی پالیسی میں یہ نرمی شام کے موجودہ صدر احمد الشارع کی قیادت میں نئی حکومت کی کارکردگی سے مشروط ہے، جنہوں نے گزشتہ سال بشار الاسد کی جگہ لی تھی اور سیاسی مفاہمت کی کوششوں میں پیش رفت دکھائی ہے۔
اہم نکات: کیا بدلا اور کیا برقرار؟
- اقتصادی ریلیف: سرمایہ کاری اور تجارتی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی تاکہ معاشی بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت ممکن ہو سکے
- سیکیورٹی پابندیاں برقرار: اسلحے اور دوہری استعمال کی ٹیکنالوجی پر پابندیاں بدستور لاگو رہیں گی
- نئی ھدف بند پابندیاں: انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث افراد پر مخصوص اقدامات کیے جائیں گے
امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی
اس فیصلے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شامی صدر الشراع کے درمیان حالیہ ملاقات کے بعد ایک مربوط مغربی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ امریکہ نے بھی اپنی کچھ پابندیاں نرم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
شامی عوام کی حالت زار
اقوام متحدہ کے مطابق90% سے زائد شامی عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کئی علاقوں میں روزانہ صرف 2 گھنٹے بجلی دستیاب ہے انسانی ضروریات کے لیے بین الاقوامی امداد زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے
شامی شہروں میں خوشی کی لہر
یورپی اور امریکی فیصلوں کے بعد شام کے کئی شہروں میں عوامی جشن دیکھنے کو ملا۔ عرب دنیا کے رہنماؤں نے بھی اس فیصلے کو "معمول کی طرف واپسی کی امید” قرار دیا۔