امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سالانہ G7 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اتوار کو کینیڈا کے پہاڑی قصبے کناناسکس پہنچ گئے، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان بگڑتی ہوئی صورتحال عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ٹرمپ کی آمد ان کے دوسری مدت صدارت کے آغاز کے بعد پہلا بڑا عالمی سفارتی قدم ہے۔
G7 اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی عالمی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں ایران میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد بین الاقوامی برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے
G7 میں شامل اعلیٰ معیشتوں — امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، جاپان اور میزبان کینیڈا — کے رہنما تین روزہ سربراہی اجلاس میں انسانی المیے کو روکنے اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کریں گے۔ اجلاس کا بنیادی فوکس مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا خطرہ کم کرنا، جوہری سرگرمیوں کی نگرانی، اور علاقائی استحکام کو فروغ دینا ہوگا۔
اجلاس سے جڑی باوثوق سفارتی ذرائع کے مطابق، صدر ٹرمپ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے اور ایران کے جوہری عزائم پر روک لگانے کے لیے متحدہ عالمی ردعمل کی وکالت کریں گے۔ وہ کئی عالمی رہنماؤں سے دو طرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے تاکہ ایک مشترکہ سفارتی لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔
ٹرمپ کی G7 میں موجودگی کو ان کی حکومت کی جانب سے عالمی سطح پر امریکی کردار کی بحالی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ اجلاس ٹرمپ کے لیے ایک فیصلہ کن موقع ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو عالمی بحرانوں سے نمٹنے میں مؤثر ثابت کریں۔
کناناسکس کا خوبصورت مقام اس وقت سخت سیکیورٹی کے حصار میں ہے۔ G7 اجلاس کو حالیہ برسوں کا سب سے زیادہ حساس اور اہم قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس کے نتائج عالمی منڈیوں، جوہری سفارتکاری، اور جغرافیائی توازن پر براہِ راست اثر ڈال سکتے ہیں۔