واشنگٹن : اسرائیل کی جانب سے جنگ شروع کیے جانے کے بعد ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی اور امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو ویٹکوف کے درمیان کئی مرتبہ ٹیلی فون پر براہ راست رابطہ ہوا۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق تین سفارت کاروں نے بتایا کہ امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو ویٹکوف اور ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کے درمیان کئی مرتبہ رابطہ ہوا تاکہ بحران کا سفارتی حل نکالا جائے۔
سفارت کاروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عباس عراقچی نے کہا کہ تہران اس وقت تک مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آئے گا جب تک اسرائیل حملے نہیں روکتا جو 13 جون کو شروع کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رابطوں کے دوران ایران کو امریکا کی جانب سے مئی کے آخر میں دی گئی ایک تجویز پر بھی مختصر بات کی گئی، جس کا مقصد علاقائی کنسورشیم بنانا تھا تاکہ افزودہ یورینیم ایران سے باہر منتقل کیاجائے، حالانکہ اس تجویز کو ایران بارہا مسترد کرچکا ہے۔
قبل ازیں امریکا اور ایران کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے عمان اور اٹلی میں مذاکرات کے متعدد دور ہوئے تھے تاہم اسرائیل کے حملے کے بعد مذاکرات منسوخ کردیے گئے تھے اور ٹیلی فون پر ہونے والے رابطے اس کے بعد تازہ بات چیت ہے۔
تہران کے معاملات سے باخبر علاقائی سفارت کار نے بتایا کہ عباس عراقچی نے اسٹیو ویٹکوف کو بتایا کہ اگر امریکا جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالتا ہے تو ایران جوہری معاملے پر لچک دیکھا سکتا ہے۔
یورپی سفارت کا نے بتایا کہ ایرانی وزیرخارجہ نے امریکی نمائندے کو بتایا کہ ایران جوہری مذاکرات میں واپسی کے لیے تیار ہے لیکن اگر اسرائیل بم باری جاری رکھے گا تو یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔
ایک اور سفارت کار کا کہنا تھا کہ رابطے میں پہلی واشنگٹن کی جانب سے کی گئی اور تنازع کا باعث بننے والے معاملات ختم کرنے کے لیے ایک نئی تجویز کی پیش کش بھی کردی تھی۔
تینوں سفارت کا نے بتایا کہ مارکو روبیو اور عباس عراقچی نے رواں ہفتے کے شروع میں یورپی ممالک کو ممکنہ سفارتی اقدامات سے آگاہ کیا تھا اور دونوں رہنماؤں نے الگ الگ رابطے میں اس حوالے سے بات کی تھی۔
سینئریورپی سفارت کار نے کہا کہ جی سیون اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ٹرمپ بہت جلد کارروائی کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ چاہتا تھا کہ ایران ان سے بات کرے تاہم یہ واضح کیا گیا تھا کہ اگر وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کے لیے ٹرمپ کے مطالبات ماننے ہوں گے۔
اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں اور ٹرمپ کے جارحانہ بیانات کے حوالے سے سفارت کار نے بتایا کہ ایران کھلے عام امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن کوششوں اور سفارتی پیش رفت کے طور پر یورپی ممالک کے ساتھ ملاقات تہران کے لیے زیادہ موزوں ہے۔