برسلز — یورپی یونین کے ایک خفیہ مگر انتہائی سنجیدہ جائزہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے دوران یورپی یونین-اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 کے تحت انسانی حقوق کی متعدد بار خلاف ورزیاں کی ہیں۔
یہ رپورٹ یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس (EEAS) نے تیار کی ہے، جو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کا اہم ادارہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ”اسرائیل کی جانب سے انسانی بنیادوں پر امداد کی بندش، اسپتالوں اور دیگر شہری انفراسٹرکچر پر حملے، اور فلسطینی عوام پر دباؤ — سب معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
یورپی سفارت کاروں کے مطابق، رپورٹ میں درج ذیل سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بیان کی گئی ہیں:
- 🚑 ہسپتالوں پر براہ راست فوجی حملے
- 🏚️ فلسطینی شہریوں کی جبری بے دخلی اور نقل مکانی
- 🔒 من مانی گرفتاریاں اور طویل حراستیں
- 🧕 آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملے اور انسانی امداد میں رکاوٹیں
یہ رپورٹ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانی امدادی اداروں کی فیلڈ رپورٹس اور شواہد کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
رپورٹ کی تیاری کے پیچھے بنیادی کردار نیدرلینڈز نے ادا کیا، جنہیں فرانس، اسپین، سویڈن اور 13 دیگر ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ ان ممالک نے باقاعدہ مطالبہ کیا تھا کہ”اسرائیل کے انسانی حقوق کے وعدوں کی باضابطہ جانچ کی جائے۔”
لیکن اس کے برعکس، جرمنی، اٹلی، اور ہنگری جیسے ممالک نے اس جائزے کی مخالفت کی، جس سے یورپی یونین کے اندر گہرے اختلافات نمایاں ہوئے کہ اسرائیل-غزہ بحران کے جواب میں کیا مؤقف اختیار کیا جائے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ان الزامات کو "سیاسی بیانیے پر مبنی اور حقیقت سے دور” قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ایک ترجمان نے کہا”یہ رپورٹ غزہ کے زمینی حقائق کی مکمل غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اصل ذمے داری حماس پر عائد ہوتی ہے، جو جنگ کو طول دے رہی ہے۔”
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالس نے اسرائیلی مؤقف پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا”ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزہ میں لوگ آٹے کے انتظار میں لائنوں میں کھڑے قتل ہو رہے ہیں — یہ ناقابل قبول ہے۔ انسانی امداد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا عالمی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”کالس نے زور دیا کہ یورپی یونین کو اب اپنے سفارتی رویے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔
یہ رپورٹ نہ صرف یورپی یونین میں داخلی کشیدگی کا سبب بن رہی ہے بلکہ اس کے اثرات اسرائیل کے ساتھ جاری تجارتی معاہدوں اور سفارتی تعلقات پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اگر یورپی یونین نے رسمی سطح پر اس رپورٹ کو قبول کر لیا، تو اسرائیل کو پابندیوں، امداد میں کٹوتی یا معاہدہ معطل کیے جانے جیسے اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔