تہران – ایران نے اتوار کے روز تصدیق کی ہے کہ امریکہ کی جانب سے حالیہ فضائی حملوں کا نشانہ بننے والے اہم جوہری مقامات — فردو، نطنز اور اصفہان — کو حملے سے قبل احتیاطی تدابیر کے تحت خالی کر دیا گیا تھا۔ اس انکشاف سے نہ صرف خطے کی انٹیلیجنس حرکیات پر سوال اٹھے ہیں، بلکہ جنگی تیاریوں اور حکمتِ عملی کی پیچیدگی بھی بے نقاب ہوئی ہے.
ایران کے نیم سرکاری میڈیا، مہر نیوز ایجنسی اور IRIB کے مطابق، ان جوہری تنصیبات سے اہم اہلکاروں اور حساس مواد کو "کچھ عرصہ قبل” ہٹا دیا گیا تھا۔ اگرچہ انخلاء کی درست تاریخ فراہم نہیں کی گئی، مگر حکام نے اشارہ دیا ہے کہ یہ اقدام خفیہ انٹیلیجنس اور خطرے کے اندازے کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے اس دعوے کے فوراً بعد سامنے آیا ہے کہ امریکہ نے تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات کو براہ راست نشانہ بنایا ہے، جو کہ اسرائیل کی جاری مہم کے تسلسل میں ایک بڑا قدم ہے۔
امریکی حکام نے حملے کو "کامیاب” قرار دیا ہے، جس میں بی ون بی بمبار طیارے اور 30,000 پاؤنڈ وزنی بنکر بسٹر بم شامل تھے۔ تاہم، ایران کے بیان سے اشارہ ملتا ہے کہ ممکنہ جانی یا جوہری اثاثوں کے نقصان کو مؤثر انداز میں روکا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ دعویٰ ایران کی اندرونی عوامی رائے کو سنبھالنے اور عالمی سطح پر اپنی دفاعی اہلیت کا تاثر دینے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
- فردو – پہاڑ کے نیچے واقع جوہری تنصیب، انتہائی مضبوط قلعہ بند مرکز
- نطنز – یورینیم کی افزودگی کا مرکزی مقام
- اصفہان – جوہری ایندھن کی تیاری اور تحقیقی سرگرمیوں کا گڑھ
یہ تنصیبات برسوں سے عالمی خدشات کا مرکز رہی ہیں، اور ان پر حملہ بین الاقوامی قوانین اور IAEA کی نگرانی سے متعلق سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔
اس وقت ایرانی حکومت کسی جانی نقصان کی تصدیق یا تردید سے گریز کر رہی ہے۔ تجزیہ کار اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا تہران فوری جوابی کارروائی کرے گا یا موجودہ کشیدگی میں سفارتی راستہ اختیار کرے گا۔
ایران کی جانب سے حملے سے بچاؤ کی یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں اور انٹیلیجنس الرٹ سسٹم پر انحصار بڑھا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، یہ سوال بھی باقی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل آئندہ اقدامات کے لیے کیا نیا منصوبہ بنائیں گے؟