ممبئی : مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے بولی وُڈ اداکار سیف علی خان کی وراثتی جائیداد کو ’دشمن کی جائیداد‘ قرار دینے سے متعلق بھارتی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جس کے بعد 15 ہزار کروڑ روپے مالیت کی جائیداد سے محرومی کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے سیف علی خان کی بھوپال میں موجود وراثتی جائیداد سے متعلق بھارتی حکومت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جس میں ان جائیدادوں کو دشمن جائیداد ایکٹ (1958) کے تحت ’دشمن کی جائیداد‘ قرار دیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ 2014 میں بھارتی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے اُس نوٹس کے تسلسل میں آیا ہے، جس میں پٹوڈی خاندان کی جائیدادوں پر ریاست نے دعویٰ کیا تھا۔
اگرچہ سیف علی خان نے 2015 میں اس نوٹس کے خلاف حکمِ امتناع حاصل کر لیا تھا، تاہم حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد وہ عبوری حکم ختم کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ جائیدادوں میں بھوپال کی اہم اور تاریخی عمارتیں شامل ہیں، جن میں فلیگ اسٹاف ہاؤس، نورالصباح پیلس، دارالسلام، احمد آباد پیلس، کوہی فضا اسٹیٹ اور حبیبی بنگلہ شامل ہیں، ان جائیدادوں کی مجموعی مالیت 15 ہزار کروڑ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔
اس تنازع کی اصل وجہ یہ ہے کہ بھوپال کے سابق نواب حمید اللہ خان کی بڑی بیٹی عابدہ سلطان نے 1950 میں پاکستان ہجرت کی تھی، جس کے باعث بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ ان کی جائیداد اب دشمن جائیداد ایکٹ (1958) کے تحت ریاستی تحویل میں آ سکتی ہے۔
تاہم، نواب کی چھوٹی بیٹی ساجدہ سلطان، جو بھارت میں مقیم رہیں، انہوں نے نواب افتخار علی خان پٹوڈی سے شادی کی اور سیف علی خان انہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
عدالت کے مطابق، صرف اس بنیاد پر کہ ساجدہ سلطان بھارت میں رہیں، انہیں تنہا وارث تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے عدالت نے یہ معاملہ ماتحت عدالت کو بھیج دیا ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ اسلامی وراثتی قانون کے تحت دیگر افراد کو بھی وراثت کا حق حاصل ہے یا نہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس معاملے پر ایک سال کے اندر فیصلہ دے، اس دوران یہ سوال بھی زیرِ غور آئے گا کہ آیا پٹوڈی خاندان کو اس جائیداد پر مکمل حق حاصل ہے یا دیگر دعوے دار بھی موجود ہیں۔
یہ مقدمہ بھارت کے موجودہ قانونی نظام، تقسیم کے بعد کی ریاستی پالیسیوں اور وراثتی قوانین کے تناظر میں ایک اہم قانونی نظیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔