پشاور — پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں کی تقسیم کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
یہ درخواست مسلم لیگ (ن) کے وکلاء نے اس بنیاد پر دائر کی کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی تقسیم غیر منصفانہ طریقے سے کی اور پارٹی کو مناسب تعداد میں نشستیں الاٹ نہیں کی گئیں
جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل محسن کامران,مسلم لیگ ن کے وکیل عامر جاوید اور بیرسٹر ثاقب رضا,جے یو آئی کے وکیل نوید اختر اور فاروق آفریدی (قانونی معاون) نے شرکت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ن لیگ نے 5 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں۔حسام انعام اللہ اور ملک طارق اعوان نے آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر پارٹی جوائن کی، لیکن انہیں مخصوص نشستوں کی تقسیم میں شمار نہیں کیا گیا۔الیکشن کمیشن نے 22 فروری کو مخصوص نشستوں کی تقسیم کی، حالانکہ طارق اعوان نے 23 فروری کو پارٹی جوائن کی تھی، جو 3 دن کی آئینی مدت کے اندر آتا ہے۔
اگر 7 نشستیں شمار کی جائیں تو مسلم لیگ ن کو 9 مخصوص نشستیں (6 خواتین، 1 اقلیت، 2 مزید) ملنی چاہئیں تھیں۔لیکن الیکشن کمیشن نے طارق اعوان کو آزاد قرار دے کر مخصوص نشست میں شمار نہیں کیا۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ یا تو کیس الیکشن کمیشن کو واپس بھیجا جائے یا عدالت ازخود فیصلہ کرے۔
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیاکہ "اگر 21 سیٹیں آپ مارچ میں دے رہے ہیں تو پھر 22 فروری کو پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر صرف 5 نشستیں کیسے دی گئیں؟”الیکشن کمیشن کے وکیل نے وضاحت دی کہ”ہم نے مخصوص نشستیں 22 فروری کی پوزیشن پر تقسیم کیں کیونکہ اسی دن جنرل نشستوں کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔”
جے یو آئی کے وکیل نے اعتراض کیا کہ ہمیں فریق نہیں بنایا گیا۔الیکشن کمیشن نے کہا کہ ن لیگ نے 1 جولائی کو درخواست دی تھی، جس کا فیصلہ بھی آ چکا ہے۔عدالت نے مشاہدہ کیا کہ قانونی طریقہ کار کی مکمل وضاحت ضروری ہے کہ مخصوص نشستیں کس بنیاد پر اور کب تقسیم کی جا سکتی ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے تمام دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ آئندہ چند روز میں فیصلہ جاری ہونے کا امکان ہے، جس کے ممکنہ اثرات خیبر پختونخوا اسمبلی کی سیاسی پوزیشن پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔