اسرائیل اور امریکہ نے غزہ کی پٹی میں جاری جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ سے اپنے مذاکراتی وفود کو واپس بلا لیا ہے، جس سے حماس کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی کی راہیں موقوف ہو گئی ہیں اور خطے میں جاری انسانی بحران کے مزید سنگین ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے جمعرات کو اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا”حماس کے وفد نے کسی بھی سنجیدہ پیش رفت کا عندیہ نہیں دیا، جس کے بعد ہم نے اپنی ٹیم کو مشاورت کے لیے دوحہ سے واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔”
امریکی حکومت کئی مہینوں سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے بیک ڈور سفارتی کوششوں میں مصروف تھی۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اب بھی "ناقابل عبور خلیج” کی مانند ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بھی اپنے وفد کی واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے حماس پر "دانستہ رکاوٹیں ڈالنے” اور "غیر منطقی مطالبات بڑھانے” کا الزام عائد کیا۔ اسرائیلی حکومت نے ایک بیان میں کہا”حماس نے تمام مناسب تجاویز کو رد کر دیا ہے۔ اسرائیل اپنے شہریوں اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔
دوحہ میں مذاکراتی عمل کی ناکامی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی سطح پر اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں روکے اور انسانی امداد کے راستے کھولے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں خبردار کر چکی ہیں کہ غزہ میں "تباہ کن قحط” کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
2.3 ملین سے زائد فلسطینی شہری اس وقت خوراک، صاف پانی اور ادویات سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو غزہ میں ایک "وسیع انسانی المیہ” جنم لے سکتا ہے۔
دوحہ مذاکرات کی میزبانی کرنے والے ملک قطر نے امریکی اور اسرائیلی وفود کی واپسی پر "افسوس” کا اظہار کیا ہے۔ قطری وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ”رابطے کے تمام ذرائع کھلے ہیں، اور قطر امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔”
دوحہ مذاکرات کی معطلی اور فلسطین کی ریاستی حیثیت سے متعلق بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت ایک ایسے موڑ پر سامنے آئی ہے جہاں مشرق وسطیٰ کی سیاست نئے رخ اختیار کر رہی ہے۔ اسرائیل کی فوجی حکمت عملی، حماس کی پوزیشن، اور مغربی طاقتوں کی پالیسیوں کے امتزاج سے آنے والے ہفتے اور مہینے خطے کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔