ریاض – سعودی عرب کی قیادت میں عرب اور اسلامی دنیا نے اسرائیلی کنیسٹ کے اُس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، جس میں مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اقدام کو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
مصر، اردن، قطر، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا، فلسطین، متحدہ عرب امارات، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) سمیت کئی مسلم و عرب ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 (1967)، 338 (1973) اور 2334 (2016) کے منافی ہے۔ ان قراردادوں کے تحت اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم سمیت فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور وہاں آباد کاری کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں واضح کیا گیا”اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے پر کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔ قبضے کو قانونی حیثیت دینے کی تمام کوششیں کالعدم ہیں اور عالمی برادری انہیں تسلیم نہیں کرتی۔”
دستخط کنندگان نے خبردار کیا کہ یہ اقدام اسرائیل کی جاری عسکری کارروائیوں کے پس منظر میں خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے، خصوصاً غزہ میں جاری تباہ کن صورتحال کے دوران۔
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے کہا”اس طرح کی لاپرواہ پالیسیوں سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو گا اور یہ جنگ بندی اور امن کی عالمی کوششوں میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔”
عرب اور مسلم دنیا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیلی توسیع پسندی کو روکنے کے لیے عملی سفارتی اقدامات کریں۔
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اسرائیلی اقدامات، دو ریاستی حل کے امکانات کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ عرب لیگ نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن، انصاف اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی کے تحفظ کے لیے فوری اور فیصلہ کن ردعمل دے۔
تمام ممالک نے 4 جون 1967 کی حدود کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنانے، اور عرب امن اقدام کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔”ہم ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں جامع، دیرپا اور منصفانہ امن کے لیے پرعزم ہیں۔” – مشترکہ اعلامیہ