یمن کے ساحل پر پیش آنے والے ایک ہولناک حادثے میں کم از کم 68 افریقی تارکین وطن ہلاک ہو گئے جبکہ 74 دیگر تاحال لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی مائیگریشن ایجنسی (IOM) کے مطابق یہ کشتی 154 ایتھوپیائی باشندوں کو لے کر خلیج عدن کے ذریعے جنوبی یمنی صوبے ابیان کی طرف رواں دواں تھی جب یہ الٹ گئی۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) کے یمن میں سربراہ عبدالستور ایسوئیف نے بتایا کہ "اتوار کی صبح پیش آنے والے حادثے میں صرف 12 افراد زندہ بچ سکے، جبکہ باقی تمام افراد یا تو ہلاک ہو چکے ہیں یا لاپتہ ہیں۔”
اب تک 68 لاشیں برآمد ہو چکی ہیں، جن میں سے 54 ضلع خانفر کے ساحل پر بہہ آئیں اور دیگر لاشیں زنجیبار شہر کے مردہ خانے میں منتقل کی گئی ہیں۔
ابیان سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ نے بتایا کہ مقامی حکام اور ریسکیو ٹیموں کی جانب سے لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے ایک بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ حکام کے مطابق "لاشیں ساحل کے مختلف علاقوں میں بکھری ہوئی پائی گئیں”۔
یہ واقعہ یمن کے خطرناک انسانی اسمگلنگ روٹ کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ اگرچہ یمن ایک دہائی سے خانہ جنگی کا شکار ہے، تاہم یہ اب بھی مشرقی افریقہ اور ہارن آف افریقہ سے آنے والے ہزاروں مہاجرین کے لیے خلیجی ممالک کا راستہ بن چکا ہے۔
تارکین وطن، جن میں اکثریت ایتھوپیائی اور صومالی افراد کی ہوتی ہے، بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو انہیں بھری ہوئی، غیر محفوظ کشتیوں کے ذریعے خلیج عدن یا بحیرہ احمر کے پار لے جاتے ہیں۔
IOM کے مطابق یہ حادثہ رواں سال پیش آنے والے کئی جان لیوا بحری سانحات میں سے ایک ہے۔ مارچ 2025 میں بھی اسی علاقے میں چار کشتیوں کے الٹنے سے 2 تارکین وطن ہلاک اور 186 لاپتہ ہوئے تھے۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، 2024 میں 60,000 تارکین وطن نے یمن کے ذریعے ہجرت کی، جو 2023 کے 97,200 کے مقابلے میں کچھ کم تھی۔ IOM کا ماننا ہے کہ اس کمی کی وجہ سمندری راستوں پر گشت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہ المناک حادثہ ایک بار پھر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ جب تک خطے میں پائیدار امن، انسانی حقوق اور معاشی استحکام کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے، ایسے دل دہلا دینے والے سانحات جاری رہیں گے۔