اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ پر مکمل فوجی کنٹرول کے ممکنہ منصوبے پر غور کے لیے قومی سلامتی کا ایک اہم اجلاس منعقد کیا۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ اعلیٰ سطحی اجلاس تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہا، جس میں وزیر دفاع یوآو گیلنٹ، وزیر اسٹریٹجک امور رون ڈرمر اور چیف آف اسٹاف ایال ضمیر سمیت اہم فوجی و سیاسی قائدین نے شرکت کی۔
اجلاس ایک ایسے وقت میں بلایا گیا ہے جب غزہ میں انسانی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے مطابق علاقے میں قحط کی کیفیت شدت اختیار کر چکی ہے، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں اور بازاروں میں خوراک کی شدید قلت ہے۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں غذائی قلت سے 8 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے، جبکہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں مزید 119 فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ نے غزہ پر ممکنہ مکمل قبضے کو "انتہائی خطرناک” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسا کوئی اقدام ناقابل واپسی انسانی سانحہ بن سکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اسرائیلی منصوبے پر براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف نے غزہ میں انسانی امداد بڑھانے کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔
ادھر مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں میں شدت آ چکی ہے۔ مظاہرین غزہ میں فاقہ کشی، حملوں اور عوامی گرفتاریوں کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔
اگرچہ اسرائیل کی فوجی قیادت مکمل قبضے سے گریز کی حامی رہی ہے، مگر دائیں بازو کے سیاسی حلقے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔ فوجی حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس اقدام سے وسائل پر بوجھ اور طویل مدتی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔