امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئے اتحاد اور امن اقدام کی وکالت کرتے ہوئے تمام علاقائی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری خطرے کے مبینہ خاتمے کے بعد ابراہام معاہدے (Abraham Accords) میں شامل ہو جائیں۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” (Truth Social) پر کہا”اب جب کہ ایرانی جوہری خطرے کو ختم کر دیا گیا ہے، کسی بھی ملک کے لیے ابراہام معاہدے سے باہر رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی صف بندیاں جنم لے رہی ہیں، اور ایران کی جوہری صلاحیتوں پر بین الاقوامی سطح پر مسلسل بحث جاری ہے۔
"ابراہام معاہدہ” سنہ 2020 میں امریکی ثالثی کے تحت اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان ہوا تھا، جس کے بعد مراکش اور سوڈان نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی۔اس معاہدے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن، اقتصادی تعاون اور سفارتی تعلقات کی بحالی تھا۔ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کو اپنی سب سے بڑی خارجہ پالیسی کامیابی قرار دیتی رہی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں ایران کے جوہری خطرے کے "خاتمے” کا دعویٰ کیا، تاہم:
- انہوں نے اس کی کوئی وضاحت یا شواہد فراہم نہیں کیے۔
- ایران یا امریکی حکومت کی طرف سے اس بیان کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔
یہ بیان عالمی مبصرین کے لیے حیرت کا باعث ہے، کیونکہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی حالیہ رپورٹس کے مطابق ایران کے پاس اب بھی یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت باقی ہے۔
ٹرمپ کے اس بیان سے مشرق وسطیٰ میں:
- نئی سفارتی کوششوں کو فروغ مل سکتا ہے
- ایران مخالف اتحاد کو تقویت مل سکتی ہے
- اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مزید نارملائز کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے
تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران کو مکمل نظر انداز کرنا یا یکطرفہ طور پر "جوہری خطرے سے آزاد” قرار دینا علاقائی کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے۔