برطانوی پولیس نے وسطی لندن میں فلسطینی ایکشن گروپ پر عائد پابندی کے خلاف ہونے والے احتجاج میں 474 افراد کو گرفتار کر لیا۔ مہم گروپ ڈیفنڈ آور جیوریز کے زیر اہتمام ہونے والے اس مظاہرے میں سیکڑوں افراد پارلیمنٹ اسکوائر پر جمع ہوئے اور فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کیا۔
پولیس کے مطابق دوپہر 1 بجے شروع ہونے والے مظاہرے میں شرکاء نے ایک گھنٹے کی خاموش چوکسی اختیار کی، اس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ گرفتار شدگان میں سے 466 افراد پر گروپ کی حمایت کا الزام لگایا گیا، جبکہ آٹھ افراد پر پولیس افسران پر حملے جیسے دیگر جرائم کے الزامات ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق احتجاج کا ماحول پرامن تھا، اور مظاہرین نے گرفتار ہونے والوں کے لیے تالیاں بجائیں اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ بزرگ شرکاء سمیت متعدد افراد کو میڈیا انٹرویوز کے دوران حراست میں لیا گیا۔
ہوم سکریٹری یویٹ کوپر نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ایکشن "غیر متشدد تنظیم نہیں” اور اس پر پابندی قومی سلامتی کے لیے ضروری تھی۔ تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان گرفتاریوں کو "آزادی اظہار پر حملہ” قرار دیا۔
فلسطینی ایکشن کو جون میں دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت باضابطہ طور پر کالعدم قرار دیا گیا تھا، جس کی حمایت یا رکنیت پر 14 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ اقدام RAF اڈے پر اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل کے خلاف احتجاجی کارروائی کے بعد سامنے آیا تھا۔
یہ گرفتاریاں غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے پس منظر میں ہوئیں، جہاں برطانوی حکومت نے حال ہی میں فلسطینی عوام کے لیے £8.5 ملین اضافی امداد کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے منصوبوں کو "غلط” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ اقدامات مزید خونریزی کا سبب بنیں گے۔