نئی دہلی : بھارت نے سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کا پاکستان کے حق میں فیصلہ ماننے سے انکار کردیا، ترجمان بھارتی وزارت خارجہ رندھیر جیسوال نے کہا عالمی ثالثی عدالت کا سندھ طاس معاہدے پر فیصلہ سنانے کا اختیار نہیں ہے، عالمی ثالثی عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ معاہدے کے تحت بھارت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے لیے چھوڑنے کا پابند ہے۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق بھارت نے عالمی ثالثی عدالت (Court of Arbitration) کے سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) سے متعلق حالیہ فیصلے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ بھارت کے پانی کے استعمال کے حقوق پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”بھارت نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کی قانونی حیثیت، جواز یا دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے تمام فیصلے دائرہ اختیار سے باہر، قانونی حیثیت سے محروم اور بھارت کے حقوق پر بے اثر ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ”بھارت پاکستان کی جانب سے اس نام نہاد فیصلے کے حوالے سے دیے گئے چنیدہ اور گمراہ کن بیانات کو بھی مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔“ ترجمان کے مطابق، بھارت نے 27 جون 2025 کی پریس ریلیز میں واضح کیا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ بھارت کی خودمختار حکومتی پالیسی کے تحت معطل کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ عالمی ثالثی عدالت نے 8 اگست 2025 کو اپنے فیصلے میں سندھ طاس معاہدے کی مختلف شقوں کی وضاحت کی تھی، خاص طور پر مغربی دریاؤں کے پانی کے استعمال اور بھارت کی جانب سے نئے پن بجلی منصوبوں کی تعمیر سے متعلق نکات پر روشنی ڈالی۔
بھارت اس ثالثی عمل میں شریک ہی نہیں ہوا اور اس نے عدالت کے قیام کے آغاز سے ہی اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، حالانکہ عدالت نے واضح کیا ہے کہ بھارت کی غیرحاضری اس کے دائرہ اختیار کو متاثر نہیں کرتی۔
پاکستان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر کے خطے میں آبی تنازع کو بڑھا رہا ہے۔ مذکورہ فیصلہ عالمی عدالت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) کی عمومی تشریح سے متعلق معاملات پر دیا گیا۔
اس اہم فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ بھارت کو مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے بلا رکاوٹ استعمال کے لیے بہنے دینا ہوگا۔
عدالت کے مطابق اس سلسلے میں بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کے لیے دی گئی رعایتوں پر معاہدے میں درج شرائط کے مطابق سختی سے عمل ہونا چاہیے، نہ کہ بھارت کے ”اپنے خیال کے مطابق“ بہترین طریقہ کار پر۔