جنگ بندی کیلئے پیوٹن کی سخت شرائط نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی ممالک سمیت یوکرین کو چکرا کر رکھ دیا۔۔ روس کی شرائط پر یوکرین کے صدر زیلنسکی اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ کل وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔۔
صدر پیوٹن نے یوکرین کی نیٹو میں رکنیت نہ کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین کے جن علاقوں پر روس نے قبضہ کر لیا ہے وہ بھی اب روسی فیڈریشن کا حصہ ہوں گے۔۔ تیسری شرط میں یوکرین کے ایٹمی گھروں پر بھی روس کا قبضہ ہو گا۔۔ ان شرائط پر غور کیلئے کل وائٹ ہاؤس میں عالمی رہنماؤں کی اہم ملاقات ہو گی۔۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یورپی رہنماؤں کی ملاقات کا مقصد اجتماعی طور پر ماسکو کی جارحیت کو ختم کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہے، اس دوران امریکا کی جانب سے یوکرین کو سیکیورٹی ضمانتیں دینے کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔
صدر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کی امریکی صدر سے ملاقات الاسکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ہونے والی سربراہی ملاقات کے بعد ہو رہی ہے، جو فوری جنگ بندی کے کسی بریک تھرو کے بغیر ختم ہوئی، جس پر امریکی صدر زور دے رہے تھے۔
بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے موقف بدلا اور کہا کہ اب وہ ایک امن معاہدہ چاہتے ہیں، اتوار کو انہوں نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ ’ٹرتھ سوشل‘ پر لکھا کہ روس پر بڑی پیشرفت ہوئی ہے، مزید جاننے کے لیے تیار رہیں، تاہم انہوں نے مزید کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔
امریکا کے روسی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اتوار کو کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن نے اپنی ملاقات میں یوکرین کے لیے مضبوط سیکیورٹی ضمانتوں پر اتفاق کیا ہے، تاہم یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین کی میزبانی میں برسلز کے دورے پر موجود یوکرینی صدر زیلنسکی نے روس کی جانب سے کسی بھی قسم کی سیکیورٹی ضمانتوں کو مسترد کیا ہے۔
یوکرین کے صدر نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سیکیورٹی ضمانتوں کے بارے میں جو کہا، وہ میرے لیے ولادیمیر پیوٹن کے خیالات سے کہیں زیادہ اہم ہے، کیونکہ پیوٹن کوئی سیکیورٹی ضمانت نہیں دیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جنگ بندی کے بجائے امن معاہدے کی تلاش کا رخ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دیرینہ مؤقف سے مطابقت رکھتا ہے، جسے یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ یہ صرف پیوٹن کے لیے وقت حاصل کرنے اور میدان جنگ میں مزید پیشرفت کا بہانہ ہے۔
صدر زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر کی تجویز کے تحت انہیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ جس میں کریملن سہ فریقی ملاقات کے لیے تیار ہو۔
یورپی یونین کے وہ رہنما جو 18 اگست کو یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ واشنگٹن جا رہے ہیں، ان میں برطانوی وزیرِاعظم کیئر سٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون، جرمن چانسلر فریڈرِش مرز، نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُتے اور وان ڈیر لیین شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی اور فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر سٹبز بھی واشنگٹن جا رہے ہیں، جو صدر ٹرمپ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ روانگی سے قبل ان رہنماؤں نے ویڈیو میٹنگ میں مشترکہ مؤقف پر اتفاق کیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئےاسٹیو وٹکوف نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ پیر (18 اگست) کو ہماری نتیجہ خیز ملاقات ہوگی، ہم حقیقی اتفاق رائے تک پہنچیں گے، روسیوں کے پاس واپس جا کر امن معاہدے کو آگے بڑھائیں گے اور اسے مکمل کریں گے۔
امریکا کے روسی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے سی این این کو انٹرویو میں بتایا کہ امریکا یوکرین کو فیصلہ کن نوعیت کی سیکیورٹی ضمانتیں دینے کے لیے تیار ہے، جس کے ساتھ علاقائی رعایتیں بھی شامل ہوں گی۔
الاسکا سے واپسی پر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ ٹرمپ کی کال پر بریفنگ دینے والے ایک اہلکار کے مطابق امریکی صدر نے روسی صدر ولایمیر پیوٹن کی اس تجویز کی حمایت کی کہ روس مشرقی یوکرین کے 2 علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرے اور اس کے بدلے میں دیگر 2 علاقوں میں محاذِ جنگ کو روک دے۔
اس عہدیدار نے کہا کہ پیوٹن مطالبہ کرتے ہیں کہ کیف مشرقی یوکرین کے ڈونیسٹک اور لوگانسک ریجن پر مشتمل علاقے ڈونباس کو چھوڑ دے، خیال رہے کہ اس علاقے پر روس اس وقت جزوی کنٹرول بھی رکھتا ہے۔
بدلے میں روسی افواج بحیرہ اسود کے بندرگاہ والے خطے خیرسون اور زاپوریزیا میں اپنی پیش قدمی روک دیں گی، جہاں اہم شہر اب بھی یوکرین کے کنٹرول میں ہیں۔
یوکرین پر حملے کے چند ماہ بعد، روس نے ستمبر 2022 میں ان چاروں یوکرینی علاقوں کو ضم کرنے کا دعویٰ کیا تھا، حالانکہ اس کی افواج آج تک کسی بھی علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکیں۔
ذرائع نے بتایا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ڈونباس چھوڑنے سے انکار کردیا ہے، اُدھر یوکرین میں جنگ جاری ہے اور اتوار کو کیف اور ماسکو دونوں نے ایک دوسرے پر ڈرونز سے حملے کیے ہیں۔