اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چار ججز نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا جس میں سپریم کورٹ کے رولز کو سرکولیشن کے ذریعے منظور کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، خط لکھنے والے چاروں ججز نے فل کورٹ اجلاس میں شرکت بھی نہیں کی۔
خط کے متن میں کہا گیا سپریم کورٹ رولز 2025ء اجتماعی مشاورت کے بغیر نوٹیفائی ہوئے۔ چاروں ججز نے خط میں یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جب فل کورٹ کے زریعے رولز کی منظوری ضروری نہیں تھی تو رولز میں ترامیم کیلئے فل کورٹ کیوں بلایا گیا ؟رولز کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری کے بعد فل کورٹ اجلاس بلانا ایسے ہی ہے جیسے کسی غلط کام کو قانونی حیثیت کا پوشاک دیا جائے،ہمارے خط کو فل کورٹ اجلاس کے منٹس کا حصہ بناکر پبلک کیا جائے، عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کیسے عدالت کے اندرونی امور چلائے جارہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ نے فل کورٹ میں شرکت نہیں کی تاہم ان چاروں ججز نے دو صفحات پر مشتمل خط چیف جسٹس پاکستان کے نام تحریر کیا۔
خط کی نقول سپریم کورٹ کے تمام ججزاور رجسٹرار سپریم کورٹ کو ارسال کی گئی ہیں ۔خط کے متن کے مطابق عوامی اعتماد ہی عدالت کی اصل بنیاد ہے، اپنی بحث عوام کے سامنے لا کر ہی اعتماد کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، ورکنگ پیپر میں تضاد، ایک طرف کمیٹی کے ذریعے نفاذ کی بات، دوسری طرف کہا گیا کہ قواعد پہلے ہی نوٹیفائی ہو چکے ہیں،چیف جسٹس نے 12 اگست کو ججوں کو بتایا کہ رولز سرکولیشن کے ذریعے منظور اور 9 اگست کو گزٹ میں شائع ہو چکے ہیں،اس کے باوجود مزید ترامیم کے لیے تجاویز طلب کی گئیں اور فل کورٹ اجلاس بلایا گیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ قانونی برادری کی ابتدائی رائے کمیٹی کو ملی مگر ابھی تک غور نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ رولز فل کورٹ کے سامنے پیش نہیں کیے گئے اور نہ ہی فل کورٹ نے انہیں منظور کیا، قواعد اجتماعی طور پر عدالت ہی منظور کرتی ہے، بغیر فل کورٹ منظوری رولز غیر قانونی ہیں، سرکولیشن معمولی اور انتظامی معاملات کے لیے ہوتا ہے، آئینی ڈھانچے کے قواعد کے لیے نہیں، چیف جسٹس اکیلے سرکولیشن کے ذریعے قواعد منظور نہیں کر سکتے تھے، موجودہ رولز substantive اور procedural دونوں اعتبار سے غیر قانونی ہیں، ایجنڈے میں رول 1(4) کا حوالہ بلا وجہ دیا گیا، اس کا مقصد صرف یکطرفہ عمل کو درست ٹھہرانا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ فل کورٹ کا اجلاس نہ صرف حیران کن بلکہ غلط مقصد کے لیے بلایا گیا ہے، 9 اگست کو رولز نوٹیفائی ہوئے، پھر 12 اگست کو انہی میں ترامیم کی تجاویز طلب کی گئیں، فل کورٹ کو بعد از وقت شریک کرنا دراصل غیر قانونی عمل کو قانونی رنگ دینے کی کوشش ہے، اگر منظوری کے لیے فل کورٹ ضروری نہیں تھی تو ترمیم کے لیے کیسے ضروری ہوگئی؟ فل کورٹ کو صرف رسمی توثیق کے ادارے تک محدود کیا جا رہا ہے، اجلاس دراصل غیر قانونی عمل کو قانونی رنگ دینے کی کوشش ہے، آئینی طور پر درست راستہ یہی ہے کہ رولز مکمل شکل میں فل کورٹ کے سامنے رکھے جائیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ کھلی بحث کے بعد ہی قواعد کی منظوری دی جانی چاہیے، موجودہ میٹنگ محض قواعد کو درست دکھانے کی کوشش ہے، ایسی میٹنگ خود تضاد ہے، اسے ترک کیا جانا چاہیے، فل کورٹ محض بعد میں ذہن میں آنے والی سوچ بن جائے گا، غیر قانونی قواعد میں ترمیم کے لیے بلائے گئے اجلاس میں شرکت بے فائدہ ہے، ہمارا اعتراض اجلاس کی کارروائی میں درج کیا جائے اور فل کورٹ کے منٹس عوام کے سامنے لائے جائیں، عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ قواعد کیسے بغیر مشاورت نوٹیفائی ہوئے، بعد از وقت میٹنگ کے ذریعے غیر قانونی عمل کو جواز دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ججز نے خط میں لکھا کہ فل کورٹ کی میٹنگز کے منٹس عوام کے سامنے لائے جائیں، شفافیت ہی آئینی اداروں کی قانونی حیثیت کی بنیاد ہے، عوامی اعتماد ہی عدالت کی اصل بنیاد ہے، اپنی بحث عوام کے سامنے لا کر ہی اعتماد کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔