اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں ججوں کی ٹرانسفر اور سینیارٹی کو چیلنج کیا تھا۔کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔
55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ صدر مملکت کو ہائی کورٹ کے ایک جج کو دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے، یہ اختیار اپنی نوعیت میں آزاد ہے، تاہم کچھ حفاظتی اقدامات اور ضمانتیں بھی شامل ہیں۔ صدر مملکت کے یہ اختیارات آئین کے کسی اور آرٹیکل پر منحصر نہیں ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ بنیادی شرط یہ ہے کہ جج کو ہائی کورٹ منتقل کرنےکے لیے جج کی رضامندی لینا ضروری ہے، صدر مملکت چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند ہیں، ہنگامی حالات میں ذیلی آرٹیکل (3) اجازت دیتا ہے کہ ہائی کورٹس کے ججوں کی تعداد عارضی بڑھائی جاسکے۔
فیصلے کے مطابق ایک ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کسی دوسری ہائی کورٹ کے جج کو مقررہ مدت کے لیے بلاسکتا ہے، یہ عمل بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب بلائے جانے والے جج کی رضامندی حاصل ہو،صدر مملکت کی جانب سے منظوری چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد دی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ آئین سازوں کے دیےگئے صدر مملکت کے اختیارات ختم نہیں کیے جاسکتے، خالی اسامیاں تبادلےکے اختیار پر اثر انداز نہیں ہوتیں، جج کا تبادلہ کسی طور نئی تقرری قرار نہیں دیا جاسکتا، آرٹیکل 200 کے تحت تبادلہ، آرٹیکل 175-اے کی تقرری سے الگ تصور کیا جائےگا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ جج ٹرانسفرکیس میں ہائی کورٹ کے 5 ججوں کے خط پر دلائل دیے گئے، 5ججوں کے خط کا کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ہمارا کوئی تبصرہ یا ریمارکس زیر التوا مقدمےکو متاثر کرسکتا ہے، الزام لگایا گیا کہ متعلقہ چیف جسٹس اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات پر عمل کرنے کے لیے مائل نظر آتے ہیں، بطور آئینی بنچ ہم اپنے دائرہ کار تک محدود رہنا چاہتے ہیں، مشاورت کرنے والوں پر عائد الزامات میں الجھنا نہیں چاہتے، ایسے الزامات آسانی سے ہر اس جج پر لگائے جاسکتے ہیں جو آرٹیکل 200 کے تحت ٹرانسفر ہوکر آئے۔