اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا 47 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو فریق بنے بغیر ریلیف دیا گیا جو برقرار نہیں رہ سکتا۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، تاہم سپریم کورٹ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑسکتی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق تفصیلی فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات بیان کرنے کے لیے علیحدہ نوٹ شامل کیا۔
نظرثانی اور بینچ کی کارروائی
فیصلے کے مطابق نظر ثانی درخواستوں کو صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، اسی لیے 13 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔ بینچ کے 11 ججز نے فریقین، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔ دو ججز نے ریویو پٹیشنز مسترد کیں جبکہ دو نے حتمی فیصلہ سنانے کے بعد مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
پی ٹی آئی کی قانونی پوزیشن
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں اور وہ مخصوص نشستوں کی حق دار قرار نہیں پائی۔ تاہم مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دیا گیا، باوجود اس کے کہ وہ کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی۔ اس لیے دیا گیا ریلیف برقرار نہیں رہ سکتا۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا انہیں مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں۔ الیکشن کمیشن نے نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مگر مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو سنے بغیر ڈی سیٹ کردیا گیا جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا۔
سنی اتحاد کونسل پر تنقید
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل اور اس کے چیئرمین کا رویہ قابلِ تعریف نہیں تھا۔ ان کے وکیل فیصل صدیقی نے ابتدائی دلائل میں تاخیر کی اور دو درخواستیں دے کر کارروائی طول دی۔ عدالت نے کہا کہ میڈیا نے اس کیس کو غیر ضروری طور پر زیادہ توجہ دی، حالانکہ قانون واضح تھا اور معاملہ آسان تھا۔
اہم نکات
-
پی ٹی آئی نہ سپریم کورٹ، نہ ہائی کورٹ اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں فریق تھی۔
-
پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ریٹرننگ افسران نے آزاد قرار دیا، مگر انہوں نے یہ فیصلہ کسی فورم پر چیلنج نہیں کیا۔
-
عدالت نے کہا کہ "تعجب ہے کہ بڑے بڑے وکلاء نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، لیکن کسی نے بھی ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔”