اسلام آباد: ملکی سیکیورٹی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہا اور نہ آئندہ کرے گا، کشمیر اور فلسطین پر ہمارا موقف تبدیل نہیں ہورہا دونوں کو خود ارادیت درکار ہے اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔
ملک کی داخلی صورتحال پر سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے معاملات کو سیاسی جماعتوں نے سیاسی طور پر حل کرلیا ہے، سب کو اپنی اپنی جگہ کام کرنا چاہیے، ملکی سلامتی کے لئے آرمی کے جوان اپنے خون سے قیمت ادا کرتے ہیں، کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اگر کشمیر میں امن وامان کے حوالے سے ذرا سا بھی انتشار ہوتا ہے تو بھارت اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
پسنی میں امریکا کے بندرگاہ کے قیام سے متعلق رپورٹ سے متعلق سوال کیا گیا تو کہا گیا کہ ہر ملک کے اپنے مفاد ہوتے ہیں، امریکا کے اپنے، چین کے اپنے اور ہمارے اپنے ہیں، ہمارے اپنے مفاد سب سے اہم ہیں، ہم چاہتے ہیں ہمارے لوگ خوشحالی کی طرف آئیں، پاکستان میں مائن اینڈ منرلز یعنی آئل، گیس، گرینائٹ، ماربل وغیرہ سب موجود ہیں ہمیں انہیں ایکسپلور کرنا ہے، بندرگاہ دینے سے متعلق مختلف تجاویز سامنے آتی رہی ہیں مگر ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔
سوال پوچھا گیا کہ کیا پسنی کی بندرگارہ امریکا کو دینے پر سیکیورٹی امریکا کی اپنی ہوگی؟ اس پر جواب دیا گیا کہ چاہے امریکا ہو یا چین، سیکیورٹی دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، پسنی بندرگارہ کمرشل جگہ ہے اور وہاں ہماری اپنی سیکیورٹی ہے اور سرمایہ کاروں کو ہم سکیورٹی دے رہے ہیں۔
سوال ہوا کہ چائنیز پر حملے ہوئے کیا ان کی سکیورٹی آئی؟ اس پر سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ یہ سوالات قبل از وقت ہوتے ہیں سرمایہ کار آتا ہے تو وہ اپنی سیکیورٹی مانگتا ہے، پاکستان میں سرمایہ کار کمپنیاں آئی ہیں افواج پاکستان سب کو سیکیورٹی دے رہی ہے، ایس آئی ایف سی نے سرمایہ کاری کا بہترین ماڈل بنایا ہے، ہماری حکومت اور قیادت مل کر کام کر رہی ہے، افواج پاکستان اور حکومت میں کوئی گیپ نہیں ہے، پسنی بندرگاہ پر سیکیورٹی ہماری ہے، سیکیورٹی کے انتظامات ریاست پاکستان خود کرتی ہے، ہم سیکیورٹی دے رہے ہیں اور سیکیورٹی کے لئے کسی کا کندھا استعمال نہیں کرتے، ایران نے کچھ کیا تو ہم نے اس کا جواب دیا، بھارت نے کیا تو ہم نے اس کا بھرکس نکال دیا، غزہ میں دیکھ لیں جب اپنی سیکیورٹی نہ ہو تو اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
غزہ میں پاکستانی دستے بھیجنے کے سوال پر سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ فلسطین بالکل ایک اہم مسئلہ ہے نہ تو پاکستان اسرائیل کو تسلیم کررہا ہے نہ کیا ہے اور نہ کریں گے، ابراہم ایکارڈ محض ایک ایجنڈا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق پاکستان کے اندر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، کشمیر اور فلسطین ہمارے لیے بہت اہم ہیں ہم بند کمروں میں کوئی بات چیت نہیں کرتے مگر وہ دن بھی چلے گئے جب ہم عوام کے سامنے سب چیزیں لے کر آتے ہیں، سب دیکھ لیں ہماری فلسطین پر پالیسی بالکل واضح ہے، کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر ہمارا موقف بالکل تبدیل نہیں ہورہا ہے، دونوں کو حق خودارادیت چاہیے ہے ہم بالکل ان کے ساتھ ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ہماری کور کمانڈرز، فارمیشن کمانڈرز جو بھی بریفنگز ہوتی ہیں آرمی چیف اس میں مسلسل ایک بات کرتے ہیں اسرائیل فلسطین میں نسل کشی کررہا ہے اور وہاں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، اسرائیل وہاں کے لوگوں کو سمندر بحر قلزم کا کھارا پانی پینے پر مجبور کررہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم یا انسانی حقوق کے لوگ یہ سب چیزیں نہیں دیکھ رہے، پورے یورپ میں لاکھوں لوگ باہر نکلے ہیں، اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ہیں سب کو اس صورتحال کو روکنا چاہیے، پاکستان نے بھی اس ظلم کو روکنے کے لئے ایک قدم اٹھایاہے تاکہ اس نسل کشی کو ہم روک سکیں، حماس اور فلسطین کے عوام جو چاہیں گے وہی ہونا چاہیے، مفروضوں سے ہمیں بچنا چاہیے۔
دہشت گردی سے متعلق سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سال 2024ء میں افواج نے 1018 دہشت گرد مارے، ستمبر 2025ء تک 1422 دہشت گر مارے جاچکے ہیں، اب تک 55ہزار 315انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن ہوچکے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر 190 انٹیلی جنس آپریشنز ہورہے ہیں، ان آپریشنز میں 118 افغان دہشت گرد مارے گئے ان میں افغانستان کے 8 خودکش حملہ آور بھی شامل تھے، 135 دہشت گرد افغان بارڈر پر مارے گئے، یہ کہاں سے آرہے ہیں یہ خارجی ہیں، اس میں بھارت کی پشت پناہی شامل ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سال 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان بنا، اس پر 2021ء میں عمل درآمد ہوا، اس میں 14 نکات بنے، موجودہ حکومت نے ایک نیاپلان عزم استحکام کانیاپلان شروع کیا، سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی جاتی
ہے، دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہ نہیں چھوڑی جائے گی، دہشت گردوں کا میڈیا سیکشن بند کیا جائے گا، افواج پاکستان اپنا کام کررہی ہے، غزوہ بدر کیوں ہوا؟ باپ بیٹے کے سامنے کیوں آیا؟ نظریہ کی بنیاد پر جنگ ہوئی تھی، ہم بھی ایک نظریے کے تحت کام کررہے ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ شانگلہ میں چائنیز پر حملہ ہوا تو پتا چلا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑی ہے ہمیں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو روکنا ہوگا، تیراہ میں سارا ڈرگ کا کاروبار ہوتا ہے اور سارے لوگ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، ہم اسمگلروں کو روک رہے ہیں ہم سے جتنا ہوسکتا ہے ہم کر رہے ہیں، جہاں 15 ملین بیرل ڈالر تیل ایران سے آتا تھا وہ اب 15 لاکھ بیرل پر آگیا ہے، ہم نے اسے روکا ہے افوا ج پاکستان اس کو روک رہی ہے،ہم چاہتے ہیں چمن میں پاسپورٹ رجیم قائم ہو، کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کام کرے، کے پی اتھارٹی کو چیک کرنا چاہیے کہ وہ صوبہ کیوں ٹھیک نہیں کرسکے؟ ہم تو جوانوں کے جنازے اٹھارہے ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کو امن کا ایوارڈ دیا جارہا ہے تو ان لوگوں کے کردار باکل واضح ہیں کہ انہیں کون فنڈنگ کررہا ہے یہ سب چیزیں سامنے آرہی ہیں، ہم بی ایل اے کے خلاف مسلسل کارروائیاں کررہے ہیں، فتنۃ الخوارج ہندوستان کے پاس امریکا کا 7.2 ارب ڈالر کا چھوڑا گیا اسلحہ موجود ہے انہیں نائٹ ویژن بھی مل گیا ہے ہم نے امریکا کو بھی بتایا ہے کہ آپ لوگ ہمیں مشکل میں ڈال کر چلے گئے۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے تو بھارت سکھوں کو کرتا پور نہیں آنے دے رہا، مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں نماز پڑھتے لوگوں کو کھینچا جاتا ہے، بلوچستا ن کے اوپر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق عمران خان کے ٹویٹ اور ہائبرڈ سسٹم پر کہا گیا کہ ملک میں ایک ہی سسٹم ہے جو آئین کے آرٹیکل 7 کے تحت پارلیمنٹ کی مجلس شوری چلاتی ہے صوبائی اسمبلیاں چلاتی ہیں، افواج پاکستان آرٹیکل 243 ،244 اور245 کے تحت چلتی ہیں،
ہم بالکل کلیئر ہیں ہم ریاست کا ادارہ ہیں اور ریاست سیاست کے ذریعے بنتی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ آج جو حکومت ہے وہی ریاست ہے ریاست جو کام اس ادارے سے لیتی ہیں ہم وہ کرتے ہیں، ہم بڑے کلیئر ہیں ہم اپنی رائے ٹھوک کر دیتے ہیں اور پھر جو فیصلہ ہوتاہے اس پر ٹھوک کر عمل کرتے ہیں، کووڈ آیا تو ہم نے این سی او سی بنایا، ہم نے بھل صفائیاں بھی کی ہیں ہم پولیو کے قطرے پلواتے ہیں، فوج کسی کی ذاتی سیاست کے لئے کام نہیں کرتی بطور ادارہ کام کرتی ہے، سیاست دانوں کے پاس اختیار ہے وہ جو مرضی جاکر بات کریں لیکن ہم اپنی بات کرتے ہیں اگر کوئی ٹویٹ کرتا ہے تو وہ جھوٹ بولتے ہیں جسے لوگ سنجیدہ نہیں لے رہے۔
خیبرپختونخوا کے معاملات پر سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں حکومت کو اپنی گورننس پر توجہ دینی چاہیے، کوہستان کے ٹھیکیدار سے 40 ارب روپے نکل آئے ہیں کیا یہ گورننس ہورہی ہے؟ لوگ اب پشاور سے نکل کر کراچی اور لاہور نکلنا چاہ رہے ہیں ایسا کیوں ہے؟
سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ فیلڈر مارشل آرمی چیف نے اگر امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کوئی بات کی ہے تو وزیراعظم ان کے ساتھ کھڑے تھے، امداد مانگنا اور آئی ایم ایف سے قرض لینا اچھا پروگرام ہے یا آج جو معدنیات ہمارے پاس موجود ہیں اسے نکالنا؟ تیل کی قوت پچھلی صدی میں تھی اگلی صدی معدنیات کی ہے، ہمیں اب اپنا کام کرناہے کیا 100سال بعد جب یہ معدنیات ختم ہوجائیں گی ہم تب اسے نکالیں گے؟ ہمیں اپنے لوگوں کو خوشحال بنانا ہے اور معدنیات کو نکالنا ہے، ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں نہ ہمارا تیل ضائع اور نہ پانی، جو پانی سمندروں میں جارہا ہے اسے بچانے کے لیے ہمیں اپنے نہری نظام کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان کوئی کنفیوژن نہیں، ادارہ جاتی بنیاد پر ہماری آپس میں گفتگو ہوتی ہے، وزیراعظم اتھارٹی ہیں اور وہ فیصلہ کرتے ہیں، معرکہ حق میں سیکیورٹی ایشوز، ملٹری اور سفارتی سطح پر جو بھی فیصلے ہوئے ہم نے اپنی رائے دی اور وزیراعظم نے فیصلے کیے، سب کچھ ریکارڈ پر ہے اور ہم بڑے واضح ہیں کوئی ہائیبرڈ چیز نہیں، فوج کو اس میں نہ ڈالیں، وزیراعظم کے طیارے میں کوئی کیسے جاتا ہے اس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں، ہم گفتگو کرتے ہیں فیصلہ ہوجائے تو اپنی مرضی نہیں بلکہ فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہیں، حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں انہیں ایک ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ ضرورت ہوتی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان آپس میں دفاعی معاہدہ ہے یہ کسی کے خلاف نہیں ہے اس کو منفی نہیں لینا چاہیے، ہر ملک کو اپنا دفاع خود کرنا ہے، سعودی عرب اور پاکستان دونوں باشعور ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے، افغانستان کے حوالے سے امریکا سے بات ہوتی ہے تو یہی ہوتی ہے کہ آپ نے وہاں اربوں ڈالر کا اسلحہ چھوڑدیا اس کی واپسی کی بات ہونی چاہیے، پاکستان کا ہمیشہ پینٹاگان سے تعلق رہاہے، دنیا بھر کے ممالک افغانستان کو کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو ختم کریں ہم چاہتے ہیں کہ کہیں پر بھی دہشت گردی نہ ہو۔