واشنگٹن/بوڈاپیسٹ — امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن کے درمیان بوڈاپیسٹ میں ممکنہ سربراہی اجلاس کے منصوبے مؤقتاً روک دیے گئے ہیں اور آئندہ کسی مقررہ تاریخ پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات اب طے نہیں۔ یہ فیصلہ ایسی سفارتی کوششوں کے بعد سامنے آیا ہے جو یوکرین تنازعہ کے خاتمے کے لیے گزشتہ ہفتے کی گئی تھیں مگر نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی۔
ایک مختصر سفارتی مہم ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان گزشتہ جمعرات کو ہونے والی فون کال کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں روسی صدر نے بعض علاقائی رقوم چھوڑنے کی تجویز رکھی۔ تجویز میں کچھ ایسے علاقے شامل تھے جو کیف کے نزدیک سٹریٹجک اہمیت رکھتے ہیں۔ تاہم اگلے روز ٹرمپ نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا اور کہا کہ حدود کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے — "لائن کو کاٹ کر نہیں بدلا جائے گا”۔
وائٹ ہاؤس نے واضح کیا کہ اس وقت صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن کے مابین کوئی مستقبل میں طے شدہ سربراہی اجلاس نہیں ہے۔ اس تبصرے کا پس منظر امریکی وزیرِ خارجہ اور روسی وزیرِ خارجہ کے حالیہ فون مواصلات بھی ہیں، جن میں روس نے اپنی مذاکراتی پوزیشن میں کوئی تبدیلی قرار نہ دینے پر زور دیا۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اپنی اتحادی پوزیشن برقرار رکھی مگر خبردار کیا کہ جب ٹرمپ نے یوکرین کو ٹوماہاک کروز میزائل فراہم کرنے کے معاملے میں تاخیر کی تو روس نے مذاکرات میں سنجیدگی کم کر دی۔ بین الاقوامی شراکت داروں نے کیف سے "علاقائی رعایتوں کے بغیر” جنگ بندی کی شدید حمایت کا اظہار کیا، جس نے بوڈاپیسٹ اجلاس کے امکانات کو مزید کمزور کر دیا۔
بوڈاپیسٹ منصوبے کا ٹھپ ہونا ایک ایسی سفارتی کوشش کے ناکام ہونے کی علامت ہے جو کچھ روز قبل تیزی سے چل نکلی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے لیے سیاسی صف بندی، علاقائی مفادات اور عسکری خطوطِ عمل ابھی بھی بڑی رکاوٹیں ہیں — اور اس صورتِ حال میں کسی جلدی حل کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔