برسلز — یورپ میں بڑھتی ہوئی غیر قانونی ہجرت کے تناظر میں 20 یورپی ممالک نے یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیجنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
بیلجیئم کی وزیر برائے پناہ گزین و ہجرت اینیلیئن وان بوسویٹ نے تصدیق کی ہے کہ 20 یورپی ممالک نے یورپی کمیشن کو ایک مشترکہ خط ارسال کیا ہے۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے رضاکارانہ یا جبری عمل شروع کیا جائے، اور اس مقصد کے لیے طالبان حکومت سے مذاکرات پر بھی غور کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق خط پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہیں:
آسٹریا، بلغاریہ، قبرص، جمہوریہ چیک، ایسٹونیا، فن لینڈ، جرمنی، یونان، ہنگری، آئرلینڈ، اٹلی، لیتھوانیا، لکسمبرگ، مالٹا، نیدرلینڈز، پولینڈ، سلوواکیا، سویڈن اور ناروے۔
ان ممالک نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد سے یورپی یونین کے پاس وطن واپسی کے باضابطہ معاہدے کی عدم موجودگی میں افغان شہریوں کو ملک بدر کرنا ممکن نہیں رہا — حتیٰ کہ وہ جرائم میں ملوث ہوں۔
یورپی وزراء نے اپنے خط میں واضح کیا کہ یہ صورتحال یورپی ممالک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
انہوں نے یورپی کمیشن پر زور دیا ہے کہ افغان وطن واپسی کے مسئلے کو اپنی ترجیحی پالیسی ایجنڈا میں شامل کرے اور اس عمل کو طالبان انتظامیہ سے مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھائے۔
ماہرین کے مطابق اگر یورپی کمیشن اس مطالبے کو قبول کر لیتا ہے تو یورپ سے افغان شہریوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔
البتہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں موجود سیاسی اور انسانی بحران کے باعث جبری وطن واپسی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دی جا سکتی ہے۔