یروشلم — اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو کو بدھ کے روز ایک بڑی سیاسی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جب ان کی اپنی جماعت لیکوڈ کے دائیں بازو کے قانون سازوں نے ویسٹ بینک (مغربی کنارے) کے مکمل الحاق سے متعلق دو بلوں کو ابتدائی منظوری دے دی۔
یہ منظوری نیتن یاہو کی مخالفت کے باوجود دی گئی، جس سے ان کی پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی بغاوت اور اختلافات واضح ہو گئے ہیں۔
پہلا بل اسرائیل کی تمام مغربی کنارے کی بستیوں پر مکمل خودمختاری کے نفاذ سے متعلق ہے،
جبکہ دوسرا بل ایک بڑی مخصوص بستی کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے پیش کیا گیا۔
دونوں بل اب مزید غور کے لیے کنیسٹ کی خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی کے پاس بھیجے جائیں گے۔
قانون بننے کے لیے انہیں تین اضافی مراحل سے گزرنا ہوگا۔
سیاسی ماہرین کے مطابق، امکان کم ہے کہ نیتن یاہو ان بلوں کو حتمی منظوری تک پہنچنے دیں گے،
کیونکہ ان کے بین الاقوامی اثرات سنگین ہو سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لیکوڈ پارٹی کے تمام ارکان نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا،
سوائے ایم کے یولی ایڈلسٹائن کے، جنہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف جا کر بل کے حق میں ووٹ دیا۔
نتیجتاً، بل 25-24 ووٹوں سے منظور ہوا۔
ایڈلسٹائن نے اپنے بیان میں کہا "اسرائیلی خودمختاری ہمارے وطن کے تمام حصوں پر نافذ ہونی چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اس سمت بڑھیں۔”
اس اقدام کے بعد لیکوڈ قیادت نے ایڈلسٹائن کو کنیسٹ کی خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی کی نشست سے ہٹا دیا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی جب امریکی نائب صدر جے ڈی وانس (JD Vance) اسرائیل کے دورے پر تھے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، یہ قانون سازی واشنگٹن اور یروشلم کے درمیان ممکنہ سفارتی تناؤ پیدا کر سکتی ہے،
کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بھی ویسٹ بینک کے الحاق کی واضح مخالفت کی ہے۔
یہ بل انتہائی دائیں بازو کے ایم کے آوی ماوز (Avi Maoz) نے پیش کیا،
جو اس سال کے اوائل میں حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی اپنی قوم پرست پالیسی پر قائم ہیں۔
ماوز نے ووٹنگ سے قبل کہا "یہ مقدس سرزمین خدا نے اسرائیل کے عوام کو عطا کی ہے۔
ان علاقوں میں آبادکاری قومی احیاء اور نجات کی علامت ہے۔”
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منظوری نہ صرف نیتن یاہو کی سیاسی گرفت کو کمزور کر سکتی ہے
بلکہ اسرائیل کے امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بھی نیا بحران پیدا کر سکتی ہے۔