یروشلم — اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈون ساعر نے واضح کیا ہے کہ حکومت اس وقت مغربی کنارے کے علاقوں کو ضم کرنے سے متعلق کسی بھی بل کی مخالفت کرتی ہے اور اس کی توجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے پر مرکوز ہے۔
ساعر نے کنیسٹ میں گزشتہ روز پیش کیے گئے الحاقی بل کے ووٹ کو اپوزیشن کا سیاسی حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام حکومت کو دباؤ میں لانے اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے اسرائیل دورے کے موقع پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش ہے۔ "یہ ووٹ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو شرمندہ کرنے کی سیاسی چال تھی۔ حکومت نے ووٹ میں حصہ نہیں لیا، اور یہی ہمارا مؤقف ظاہر کرتا ہے،”
انہوں نے یروشلم میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اگرچہ بستیوں کو ضم کرنے کی خواہش دیرینہ ہے، تاہم اس وقت اسرائیلی حکومت کے ایجنڈے میں یہ بل شامل نہیں۔
ساعر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اسرائیلی حکومت اپنی تمام توانائیاں غزہ تنازع کے خاتمے اور ٹرمپ امن منصوبے کی کامیابی پر صرف کر رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی حکومت کے تعاون کے بغیر یہ قانون سازی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ "یہ وہ قانون سازی نہیں تھی جو حکومت کی جانب سے کنیسٹ میں لائی گئی ہو۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے اس مرحلے پر پیش نہیں کیا جائے گا،”
قبل ازیں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیل کا یہ اقدام ٹرمپ امن منصوبے کے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، جس پر ساعر نے جواب دیا کہ تل ابیب واشنگٹن کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور دونوں حکومتیں تنازع کے پرامن حل کے لیے کوشاں ہیں۔