واشنگٹن — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کے صدور سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا مقصد ایک ایسے خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو مضبوط بنانا ہے، جو طویل عرصے سے روس کے زیرِ اثر اور اب چین کے بڑھتے اقتصادی و سیاسی اثر کی زد میں ہے۔
یہ ملاقات C5+1 پلیٹ فارم کے تحت ہو رہی ہے، جو 2015 میں قائم کیا گیا تھا اور اس میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔
اجلاس کے بعد رہنماؤں کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس میں سرکاری عشائیہ بھی دیا جائے گا۔
امریکی حکام کے مطابق، صدر ٹرمپ اس موقع پر خطے کے ساتھ اقتصادی، توانائی اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی نئی تجاویز پیش کریں گے، تاکہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا موثر توازن قائم کیا جا سکے۔
وسطی ایشیا معدنیات اور توانائی سے مالا مال خطہ ہے، جسے عالمی سطح پر "نئے معدنی دل” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
-
یہ پانچوں ممالک 84 ملین سے زائد آبادی رکھتے ہیں۔
-
خطہ یورینیم، تانبہ، سونا، نایاب زمینی عناصر اور دیگر اسٹریٹجک معدنیات سے مالا مال ہے۔
-
قازقستان دنیا کا سب سے بڑا یورینیم فراہم کنندہ ہے، جو 2024 میں عالمی پیداوار کا تقریباً 40 فیصد تھا۔
-
ازبکستان بھی دنیا کے پانچ بڑے سپلائرز میں شامل ہے۔
یہ ممالک مجموعی طور پر دنیا کی یورینیم پیداوار کا نصف سے زیادہ فراہم کرتے ہیں — وہی عنصر جو امریکی جوہری توانائی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
فی الحال روس امریکہ کے درآمدی یورینیم کا تقریباً 20 فیصد فراہم کرتا ہے، جسے کم کرنا امریکی پالیسی کا فوری ہدف بن چکا ہے۔
سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی ڈائریکٹر گریسلن باسکرن کے مطابق “امریکی انتظامیہ نہ صرف حکومت سے حکومت کے تعلقات کو مستحکم کر رہی ہے بلکہ ایسے تجارتی معاہدے بھی کر رہی ہے جو امریکا کے لیے اہم معدنیات تک براہ راست رسائی کو یقینی بنائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن اب نشاندہی شدہ اسٹریٹجک منصوبوں کے ذریعے خطے میں مستقل موجودگی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ چین اور روس پہلے ہی کان کنی اور بنیادی ڈھانچے کے نظام پر اپنا کنٹرول بڑھا چکے ہیں۔
-
روس اب بھی وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ اہم اقتصادی و دفاعی تعلقات رکھتا ہے۔
-
چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے تحت خطے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، خاص طور پر انفراسٹرکچر اور معدنی ترقی میں۔
-
واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ یہ پیش رفت خطے کو بیجنگ کے معاشی دائرے میں مزید لے جائے گی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ایک نئی کثیر الجہتی حکمتِ عملی اپنائی ہے تاکہ
-
اہم معدنیات کے متبادل ذرائع تلاش کیے جائیں،
-
چین پر انحصار کم کیا جائے،
-
اور امریکی کمپنیوں کے لیے تجارتی مواقع پیدا کیے جائیں۔
چین ماضی میں کئی مواقع پر نایاب دھاتوں کی برآمدات محدود کر چکا ہے، جس کے باعث واشنگٹن کو فوری متبادل سپلائی لائنز تلاش کرنے کی ضرورت پڑی۔
ماہرین کے مطابق، وائٹ ہاؤس میں ہونے والی یہ ملاقات نہ صرف اقتصادی تعلقات بلکہ عالمی جغرافیائی سیاست کے نئے توازن کی علامت ہے۔
امریکہ اب وسطی ایشیا کو اپنی نئی توانائی و معدنیاتی پالیسی کے مرکز میں لا رہا ہے — ایک ایسا خطہ جو مستقبل کی ٹیکنالوجی اور توانائی کی دوڑ میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔

