لاہور — پاکستان فلم انڈسٹری کے عظیم موسیقار اور سحر انگیز دھنوں کے خالق فیروز نظامی کو دنیا سے رخصت ہوئے آج 50 برس مکمل ہو گئے۔ اپنی بے مثال فنی خدمات کے باعث فیروز نظامی کو موسیقی کی دنیا میں استاد کا درجہ حاصل رہا، جبکہ نامور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔
1910ء میں لاہور کے فنکار گھرانے میں پیدا ہونے والے فیروز نظامی نے گریجوایشن کے بعد باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور جلد ہی دھن سازی میں ایک منفرد مقام پیدا کیا۔
ان کے شہرۂ آفاق گانوں میں چن دیا ٹوٹیا وے دلاں دیا کھوٹیا، وے منڈیا سیالکوٹیا سمیت وہ دھنیں شامل ہیں جو آج بھی موسیقی کے شائقین کے دلوں میں زندہ ہیں۔
1936ء میں آل انڈیا ریڈیو لاہور کی نشریات کا آغاز ہوا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر تعینات ہوئے۔ بعد ازاں دہلی اور لکھنؤ ریڈیو اسٹیشنز پر بھی خدمات انجام دینے کے بعد وہ بمبئی کی فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے۔
بطور موسیقار ان کی پہلی فلم "وشواس” 1943ء میں ریلیز ہوئی جبکہ ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور واپس آئے اور متعدد پاکستانی فلموں کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔
ان کی مشہور فلموں میں دوپٹہ، سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل ہیں۔
فلم دوپٹہ کا گانا چاندنی راتیں، تاروں سے کریں باتیں ان کی شہرت کا سنگِ میل ثابت ہوا۔
شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو، جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار نبھائے، نے بھی فیروز نظامی کے فن کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
فلم چن وے کی موسیقی نے ہر طرف دھوم مچا دی جبکہ تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے جیسا سپر ہٹ گانا بھی ان کا تخلیق کردہ ہے۔
وہ الحمرا آرٹس کونسل کی میوزک اکیڈمی کے پرنسپل بھی رہے اور موسیقی کے اسرار و رموز کو کتابی شکل میں محفوظ کرنا ان کا بڑا کارنامہ ہے۔
ان کی معروف کتابوں میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات شامل ہیں۔
فیروز نظامی 15 نومبر 1975ء کو 65 برس کی عمر میں انتقال کر گئے اور میانی صاحب قبرستان لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔
اپنے فن، دھنوں اور خدمات کے باعث وہ آج بھی پاکستانی موسیقی کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔

