لندن — برطانیہ نے امیگریشن پالیسی میں دھماکہ خیز تبدیلیوں کا اعلان کر کے پورے یورپ میں ہلچل مچا دی ہے۔ حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ اب پناہ گزینوں کے لیے برطانیہ ’’آسان منزل‘‘ نہیں رہے گا، اور بعض نئے قوانین یورپ کی سخت ترین پالیسیوں سے بھی بڑھ کر ہوں گے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ایسے پناہ گزین جو کام کرسکتے ہیں لیکن نہیں کرتے، یا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اب نہ رہائش پائیں گے اور نہ ہی حکومتی الاؤنس۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ’’ٹیکس دہندگان کا پیسہ اب صرف اُن لوگوں پر خرچ ہوگا جو ملک میں مثبت کردار ادا کریں گے۔‘‘
حکام کے مطابق فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے نظام کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے، جس کے بعد لندن نے یورپ کی سخت ترین مثال، ڈنمارک کے ماڈل کو بھی پیچھے چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی حکام نے کوپن ہیگن کا دورہ کرکے ڈنمارک کی پالیسیوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اب برطانیہ میں بھی:
-
عارضی رہائشی اجازت نامے
-
کمزور بنیادوں پر پناہ کے فیصلے واپس لیے جانے کا امکان
-
اور مراعات کا مکمل خاتمہ
جیسے اقدامات شامل ہوں گے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ ’’ہم یورپ کی سب سے سخت امیگریشن پالیسی متعارف کر رہے ہیں۔‘‘
100 سے زیادہ خیراتی اداروں نے حکومت کو خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ ایسی پالیسیاں مہاجرین کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دے سکتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ اقدامات انسانی حقوق کے خلاف جا سکتے ہیں۔
صرف ایک سال میں پناہ کی درخواستیں 17 فیصد بڑھ کر ایک لاکھ سے تجاوز کر گئیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ دباؤ ہے جس نے اصلاحات کو ناگزیر بنا دیا۔

