بیجنگ – چین نے امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگان کی ایک مسودہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بیجنگ کسی بھی ملک کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ جوہری اسلحہ کے خاتمے سے متعلق اپنی عالمی ذمہ داریاں پوری کرے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لین جیان نے منگل کے روز معمول کی پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ کو ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں جن کے تحت جوہری ہتھیار رکھنے والے دیگر ممالک بھی تخفیفِ اسلحہ کے عمل میں مؤثر طور پر شامل ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین ایک دفاعی نوعیت کی جوہری حکمتِ عملی پر کاربند ہے اور جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔
یہ ردعمل پینٹاگان کی اس مسودہ رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین نے مختلف لانچ سائٹس پر 100 سے زائد بین البرِاعظمی بیلسٹک میزائل نصب کر رکھے ہیں اور وہ واشنگٹن کی قیادت میں تخفیفِ اسلحہ کی کوششوں میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
امریکی رپورٹ کے الزامات
پینٹاگان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے ممکنہ طور پر اپنی تین نئی لانچ سائٹس میں ’ڈی ایف-31‘ قسم کے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے بیلسٹک میزائل تعینات کیے ہیں، جن میں سے متعدد تنصیبات منگولیا سے متصل سرحد کے قریب واقع ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ مراکز چین کے وسیع میزائل ذخیرہ پروگرام کا حصہ ہیں۔
تاہم رپورٹ میں ان میزائلوں کے ممکنہ اہداف کی نشاندہی نہیں کی گئی اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ مسودہ قانون سازوں کو پیش کیے جانے سے قبل مزید ترمیم سے گزر سکتا ہے۔ پینٹاگان نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا جبکہ واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے بھی تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عالمی برادری کو گمراہ کرنے کا الزام
بیجنگ کا کہنا ہے کہ چین کی عسکری صلاحیتوں میں اضافے سے متعلق مغربی رپورٹس عالمی برادری کو گمراہ کرنے اور چین کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہیں۔ چینی حکام کے مطابق چین کی جوہری پالیسی کا محور صرف قومی دفاع اور تزویراتی توازن ہے، نہ کہ کسی قسم کی اسلحہ کی دوڑ۔
ٹرمپ کا مؤقف اور جوہری مذاکرات
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل امریکہ میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں، تاہم اس حوالے سے اب تک کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ گزشتہ ماہ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ چین اور روس کے ساتھ جوہری اسلحہ کے خاتمے کے منصوبے پر کام کر سکتے ہیں، مگر پینٹاگان کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بیجنگ اس معاملے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
چین کا جوہری ذخیرہ
رپورٹ کے مطابق 2024ء میں چین کے جوہری وارہیڈز کی تعداد تقریباً 600 رہی، جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں پیداوار کی سست رفتار کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین کی جوہری توسیع کا عمل جاری ہے اور بیجنگ 2030ء تک ایک ہزار سے زائد جوہری وارہیڈز رکھنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔

