جرمن چانسلر اولاف شولز کے وسطی ایشیا کے تین روزہ دورے کے دوران، وسطی ایشیائی رہنماؤں نے جرمنی کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں 17 ستمبر 2024 کو ہونے والی اس ملاقات میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور تاجکستان کے سربراہان نے شرکت کی۔ ان رہنماؤں نے واضح پیغام دیا کہ وسطی ایشیائی ریاستیں جرمنی اور یورپی یونین کو توانائی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کے بدلے میں انہیں صرف مالی معاوضے کی بجائے صنعت کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری اور تعاون کی ضرورت ہے۔
جرمنی کی وسطی ایشیائی توانائی، خصوصاً قدرتی گیس میں دلچسپی، روسی درآمدات پر انحصار کم کرنے کی یورپی یونین کی وسیع تر حکمت عملی سے ہم آہنگ ہے۔ اس ملاقات کا کوئی مخصوص معاہدہ تو نہیں ہوا، لیکن مستقبل میں معاہدوں کے امکانات کے حوالے سے فریقین نے امید کا اظہار کیا۔ جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق شولز نے کہا کہ "ہمارے معاشروں کے درمیان تعلقات پہلے کبھی اتنے قریبی نہیں تھے اور یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔”
قازق صدر قاسم جومارت توکایف نے بھی اس ملاقات کی میزبانی کرتے ہوئے تعاون بڑھانے کی خواہش کا اعادہ کیا اور کہا کہ "رہنماؤں کے درمیان خیالات کے جامع تبادلے نے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی مشترکہ خواہش کو تقویت دی ہے۔” انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ توانائی کے مسائل مستقبل کے تعلقات میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
توکایف کے مطابق قازقستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک نہ صرف جرمنی بلکہ یورپی یونین کے دیگر ممالک کو بھی توانائی کی فراہمی کے لیے تیار ہیں، لیکن خطے کی ریاستیں محض مالی فوائد سے آگے بڑھ کر اپنی صنعتوں کے فروغ اور طویل مدتی تعاون کی متمنی ہیں۔
یہ دورہ یورپ اور وسطی ایشیا کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہے، جہاں دونوں فریق معاشی مفادات کو توانائی کی ضروریات کے ساتھ متوازن کرنے کے خواہاں ہیں۔