حکومت رواں مالی سال کے ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ جولائی سے ستمبر تک ٹیکس آمدنی میں 96 ارب روپے کی کمی آئی۔
پہلی سہ ماہی کے لئے آئی ایم ایف نے حکومت کو 2652 ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا ہدف دیا تھا۔ حکومت تین ماہ میں 2556 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر سکی۔
رواں مالی سال کے لئے مجموعی ٹیکس آمدنی کا ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے ہے۔ آئی ایم ایف پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اگر حکومت ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان عوام پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے گا۔
کیا منی بجٹ ناگزیر ہے؟
اگر حکومت ٹیکس ہدف پورا نہ کر سکی تو 15 اکتوبر سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ حکومت پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کر سکتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں سستے تیل کا فائدہ عام عوام کو نہیں پہنچ سکے گا۔
ایف بی آر ستمبر 2024 کے لیے 1100 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کو چھونے اور عبور کرنے کی جانب گامزن ہے جبکہ اس ماہ کے لیے 1098 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے خبردار کیا تھا اگر پہلی سہ ماہی کے ہدف کو حاصل کرنے میں 2 فیصد سے کچھ زیادہ کمی ہوئی تو اضافی محصولات کے اقدامات کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔
حکومت کا سخت نفاذ کے اقدامات کا منصوبہ ہے۔ بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنا، ممکنہ ٹیکس چوروں کے لیے جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری پر پابندی شامل ہے لیکن اس کے لیے قانون سازی میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے لہذا ٹیکس قوانین میں ایسی مطلوبہ تبدیلیوں کو عملی جامہ پہنانے اور نافذ کرنے کے لیے منی بجٹ کا امکان ہوگا۔
اب ایف بی آر کو رواں مالی سال کی بقیہ تین سہ ماہی (اکتوبر تا جون) کے دوران 40 فیصد کے قریب محصولات میں اضافہ حاصل کرنے کے لیے چیلنجنگ صورتحال کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت کی اہلیت اور صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔