حکومت نے چائے کی پتی کی کم سے کم قیمت 1200 روپے فی کلو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،، پاکستان ٹی ایسوسی ایشن کے مطابق کم از کم خوردہ قیمت مقرر کرنے کے نتیجے میں چائے 150 سے 300 روپے فی کلو مہنگی ہو جائے گی،،
ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد الطاف کے مطابق چائے کی کم از کم خوردہ قیمت کے تعین میں عالمی قیمتوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جو نصف سینٹ سے 3 ڈالر فی کلو گرام تک ہیں۔ چائے کو مختلف پیکیجنگ میں درآمد کیا جاتا ہے ، جن میں بڑے پیمانے پر شپمنٹ عموماً 5 کلو سے 80 کلو وزن کی حامل ہوتی ہے جبکہ درآمد شدہ ہونے کی وجہ سے چائے پر پہلے ہی 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
سیلز ٹیکس کے نفاذ کے لیے کم از کم خوردہ قیمت طے کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے سیکشن 2 (16) میں ’مینوفیکچرر‘ کی تعریف میں بلینڈنگ، مکسنگ، پروسیسنگ اور پیکیجنگ جیسی سرگرمیاں شامل ہیں، جیسا کہ 17 جولائی 2019 کے سرکلر نمبر 3 (11) ایس ٹی-ایل اینڈ پی /2013-94433-آر میں واضح کیا گیا ہے، ان عوامل کی بنیاد پر درآمدی چائے ’خام مال‘ کے زمرے میں آتی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ ’ عدالتی توجیہات ( مثلاً سی ٹی او وی۔ راجستھان ٹیکسچم لمیٹڈ، 2007) اور جدید قانونی لغات میں مینوفیکچرنگ کے لیے ضروری اجزا کو خام مال تصور کیا جاتا ہے، بلینڈنگ اور پیکیجنگ میں استعمال ہونے والی چائے واضح طور پر اس درجے میں شمار ہوتی ہے’۔ محمد الطاف نے مزید کہا کہ سیلز ٹیکس قانون 1990 کے سیکشن 2 کے سب سیکشن 46(ایف) کے مطابق سیلز ٹیکس کم از کم خوردہ قیمت کے بجائے درآمدی مالیت پر مبنی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ کمپنی، فروخت کے طریقہ کار ( کھلی یا ڈبہ پیک)، پروڈکٹ کے معیار اور علاقائی تقسیم جیسے مختلف عوامل کی بنیاد پر چائے کی خوردہ قیمتیں مختلف ہوتی ہیں، انہوں نے کہا کہ فی کلو یکساں کم از کم خوردہ قیمت زیادہ تر تاجروں، تیار کنندگان اور فروخت کنندگان کی جانب سے وصول کی جانے والی قیمتوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔
انہوں نے کہا کہ فی کلو یکساں کم ازکم قیمت کا نفاذ چائے کی تجارت کے وسیع حصے کے لیے سنگین منفی اثرات کی وجہ بنے گا، جس کے باعث تجارتی سرگرمیاں ماند پڑسکتی ہیں اور کئی استثنات کے غلط استعمال کے نتیجے میں قومی خزانے کی آمدن میں نقصان ہوسکتا ہے۔ دو تہائی پاکستانی سماجی و اقتصادی اور علاقائی تغیرات کی بنیاد پر700 سے 950 روپے فی کلو مالیت کی چائے خریدتے ہیں۔