اسلام آباد: اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران مشتعل افراد کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے کی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
مقامی اور بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ مشتعل افراد نے نہ صرف انھیں دھکے دیے بلکہ عمارتوں اور سازوسامان کو بھی نقصان پہنچایا۔
انڈیپنڈنٹ اردو کی صحافی عینی شیرازی نے بتایا کہ انھیں ڈی چوک میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے دھکم پیل اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
’مجھے اور میرے ویڈیو جرنلسٹ کو دھکے دیے گیے اور گالم گلوچ کی گئی۔ ان کا ایک گروہ آیا جس نے ہمیں دھکے دے کر ڈی چوک سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ اس دوران میری ٹانگ پر چوٹ آئی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تم لوگ صحیح رپورٹنگ نہیں کر رہے۔‘ عینی شیرازی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس دوران فائرنگ کا آغاز ہو گیا اور یہ ایک مشکل صورتحال بن گئی تھی ہمارے لیے۔‘
ویئون نیوز سے تعلق رکھنے والے صحافی انس ملک کے مطابق وہ ایکسپریس چوک پر واقع ’ایک نیوز‘ کی عمارت کی چھت سے لائیو رپورٹنگ کر رہے تھے کہ تین بج کر 10 منٹ کے قریب ایک کار عمارت کے قریب آکر رکی جس کے بعد ان پر پتھراؤ شروع ہوا۔
ان کے مطابق پتھراؤ کے نتیجے میں عمارت کے شیشوں کو نقصان پہنچا جس کے بعد عمارت کی انتظامیہ نے عمارت کو بند کر دیا۔
انس ملک کا کہنا ہے کہ کچھ دیر بعد 20 کے قریب مشتعل افراد عمارت کا بیرونی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔ ان کے مطابق عمارت میں داخل ہونے والے افراد لاٹھیوں اور غلیلوں سے لیس تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مشتعل افراد جاتے وقت ان کے ماسک، ایک ہیلمٹ اور جیکٹ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
احتجاجی مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے نتیجے میں ایک نیوز کے ڈائریکٹر نیوز نارتھ محمد عادل بھی زخمی ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی سارہ حسن کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے ان کی ٹیم پر حملہ کیا ہے۔
’ہم نے پہلے بھی انھیں کہا تھا کہ ایسا نہ کریں۔ ہماری ٹیم کو دوسری بار روکا گیا ہے۔ میری رپورٹر سے بات ہوئی جو گھبرائے ئوئے تھے اور بس اتنا کہا کہ ہم پھنسے ہوئے ہیں، بعد میں بات کرتا ہوں۔ ہمارے دو لوگوں کی ٹیم ہے جو مظاہرین کے بیچ پھنس گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پی ٹی آئی کی قیادت سے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتی ہیں کہ ہماری ٹیم کو وہاں سے نکالیں۔
پی ٹی آئی کے ترجمان نے بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید کو بتایا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل اعلانات کر رہے ہیں کہ میڈیا کی کسی ٹیم پر حملہ نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ شاید ہجوم میں کچھ شرپسند عناصر شامل ہو گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا پر حملہ افسوسناک ہے۔