دمشق : مفرور شامی صدر بشار الاسد کا طیارہ مبینہ طور پر روس جاتے ہوئے ریڈار سے غائب ہو گیا جس کے بعد ان کی حادثے میں مارے جانے کی متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں باغیوں کے داخل ہونے سے پہلے ہی بشار الاسد ایک طیارے میں نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔
اس حوالے سے عرب ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم محمد غازی الجلالی کا کہنا تھا میرا بشار الاسد سے آخری مرتبہ رابطہ ہفتے کی رات کو ہوا تھا اور جب میں نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا تھا تو ان کا کہنا تھا اگلی صبح اس معاملے پر بات کرتے ہیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا کہ بشار الاسد 8 دسمبر کی علی الصبح IL-76 (YK-ATA) کے ذریعے دمشق سے فرار ہوئے تاہم ان کی لوکیشن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
شام میں بشارالاسد کا 24 سالہ اقتدار ختم، باغی گروہ کے سربراہ کا بیان بھی سامنے آگیا
فلائٹ ریڈار 24 کے مطابق بشار الاسد سیرین ائیر کی فلائٹ 9218 کے ذریعے دمشق سے روانہ ہوئے، طیارے نے پہلے شام اور عراق کے سرحدی علاقے کی جانب اڑان بھری پھر اچانک ان کا طیارہ بحیرہ روم کی جانب مڑ گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق 4 انجن والے بشار الاسد کے طیارے کی منزل کے بارے میں کسی قسم کی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں تاہم ریڈار پر موجود ڈیٹا کے مطابق بشار الاسد کا طیارہ باغیوں کے زیر اثر شہر حمص سے شمال مشرق کی طرف گیا، پھر اچانک طیارے کا رخ شام کی ساحلی پٹی کی جانب موڑ دیا گیا۔
بشار الاسد کے طیارے کا جو دو منٹ کا ریڈار ڈیٹا دستیاب ہے اس کے مطابق بشار الاسد کے طیارے کو 8725 فٹ کی بلندی سے مسلسل نیچے کی جانب آتے دیکھا گیا، طیارے کی رفتار 819 کلو میٹر فی گھنٹہ سے 159 کلو میٹر فی گھنٹہ تک ریکارڈ کی گئی اور پھر یہ رفتار 64 کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی۔
کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بشار الاسد کا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے تاہم اس حوالے بھی تاحال کسی قسم کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
آنکھوں کے ڈاکٹر سے شام کے صدر بننے تک
شام کے صدر بشار الاسد کی زندگی میں بہت سے اہم لمحات ہیں لیکن شاید سب سے زیادہ متاثر کن وہ کار حادثہ تھا جو اس مقام سے ہزاروں کلومیٹر دور پیش آیا جہاں وہ رہ رہے تھے۔
بشار الاسد کو ابتدائی طور پر اپنے والد سے وراثت میں اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ 1994 کے اوائل میں دمشق کے قریب ایک کار حادثے میں ان کے بڑے بھائی باسل کی موت کے بعد شروع ہوا۔
اس وقت بشار لندن میں امراض چشم کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
باسل کی موت کے بعد چھوٹے بھائی کو شام میں اقتدار کے وارث کے طور پر تیار کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ بعد میں انھوں نے ایک جنگ کے ذریعے ملک کی قیادت کی۔۔۔ ایک ایسی جنگ جس میں لاکھوں جانیں گئیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔
بشار الاسد 1965 میں حافظ الاسد اور انیسہ مخلوف کے ہاں پیدا ہوئے۔
ان کی پیدائش ایک ایسے وقت میں ہوئی جب شام، مشرق وسطیٰ اور یہاں تک کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ اس وقت عرب قوم پرستی نے جمال عبدالناصر کی صدارت کے ساتھ بہت سے ممالک بالخصوص مصر کی علاقائی سیاست کو متاثر کیا تھا۔
مصر اور شام (1958-1961) کے درمیان مختصر مدت کے اتحاد کی ناکامی کے بعد بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور عرب قوم پرست نعروں کو فروغ دیا تھا۔ اس وقت بیشتر عرب ممالک کی طرح شام میں بھی جمہوری حکومت نہیں تھی اور وہاں کثیر الجماعتی انتخابات نہیں ہوئے تھے لیکن اس کی معاشی پالیسیاں بنیادی طور پر محروم سماجی طبقات کے حق میں تھیں۔
علوی برادری جس سے اسد خاندان کا تعلق ہے، یہ شام کے سب سے محروم طبقات میں شمار ہوتی تھی اور معاشی مشکلات نے اس کے بہت سے ارکان کو شامی فوج میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔
حافظ الاسد ایک فوجی افسر اور بعث پارٹی کے کٹر حامی کے طور پر مشہور ہوئے اور پھر 1966 میں وہ وزیر دفاع بنے۔
حافظ الاسد نے اقتدار کو مستحکم کیا اور 1971 میں صدر بن گئے، یہ عہدہ وہ 2000 میں اپنی موت تک برقرار رہے۔ یہ لمبی عمر شام کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں قابل ذکر تھی، جس نے فوجی بغاوتوں کا ایک سلسلہ دیکھا تھا۔
حافظ الاسد نے 1970 تک اپنی طاقت کو مستحکم کیا اور 1971 میں وہ صدر بن گئے۔ وہ اس عہدے پر 2000 میں اپنی موت تک برقرار رہے۔ شام کی آزادی کے بعد کی تاریخ جس میں کئی بغاوتیں بھی شامل ہیں، ایسے میں ان کا تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنا انتہائی غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔
حافظ ایک سخت گیر حکمران تھے جنھوں نے اپوزیشن کو دبایا اور جمہوری انتخابات کرانے سے انکار کیا، تاہم انھوں نے اپنی خارجہ پالیسی میں عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ سوویت یونین کے ساتھ اتحاد کرنے کے بعد پھر 1991 میں انھوں نے خلیج فارس کی جنگ میں امریکی قیادت والے اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔
ان حالات میں بشار الاسد نے سیاست اور فوج سے دور ایک مختلف راستہ چنا جو سیاست اور عسکریت پسندی سے کوسوں دور تھا۔ انھوں نے طب میں اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔
دمشق یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ 1992 میں لندن کے ویسٹرن آئی ہسپتال میں امراض چشم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے برطانیہ چلے گئے۔
بی بی سی کی 2018 کی دستاویزی فلم ’دا اسدز: اے ڈینجرس ڈائنیسٹی‘ کے مطابق بشار الاسد کی لندن میں زندگی بہت خوشگوار تھی۔ وہ انگریزی گلوکار فل کولنز کے دلدادہ تھے اور مغربی ثقافت کو پسند کرتے تھے۔
لندن میں ہی بشار اپنی اہلیہ اسما فواز الاخرس سے ملے۔ اسما کنگز کالج لندن میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور بعد میں انھیں ہارورڈ یونیورسٹی میں ایم بی اے پروگرام میں داخلہ مل گیا۔ تاہم ان کی زندگی نے جلد ہی ایک مختلف موڑ لیا۔
بشار حافظ الاسد کے دوسرے بیٹے تھے اوران کی زندگی اپنے بڑے بھائی باسل کے سائے میں گزری تھی جنھیں ان کے والد کے وارث کے طور پر تیار کیا جا رہا تھا۔
اپنے انجینئرنگ پس منظر اور گھڑ سواری کے شوق کی وجہ سے مشہور باسل کو شام میں اقتدار کا ’یقینی وارث‘ سمجھا جاتا تھا۔
جنوری 1994 میں باسل دمشق کے قریب ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے اور اس حادثے نے بشار کی زندگی بدل دی۔
انھیں فوری طور پر لندن سے واپس بلا لیا گیا اور شام کے مستقبل کی قیادت کے لیے انھیں تیار کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔
بشار نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور مستقبل میں اپنے کردار کے لیے عوامی امیج بنانا شروع کیا۔
حافظ اسد کی وفات جون 2000 میں ہوئی۔ ان کی موت کے فوری بعد 34 سالہ بشار کو فوری طور پر صدر مقرر کر دیا گیا۔
شام میں چونکہ صدارت کے لیے عمر کی حد کم ازکم 40 سال تھی اس لیے ان کا اقتدار شام کے آئین میں ترمیم کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔
بشار الاسد نے حلف اٹھانے کے بعد ایک نیا سیاسی لہجہ اختیار کرتے ہوئے شفافیت، جمہوریت، ترقی، جدت، احتساب اور ادارہ جاتی سوچ کو اپنانے کی بات کی۔
اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد بشار الاسد نے اسما الاخرس سے شادی کر لی۔ ان کے تین بچے ہیں جن کے نام حفیظ، زین اور کریم ہیں۔
پہلے پہل سیاسی اصلاحات اور میڈیا کی آزادی کے بارے میں بشار الاسد کے خیالات نے بہت سے شامیوں میں امید کی کرن جگائی۔ ان کی اہلیہ اسما کی مغرب سے اعلی تعلیم اور بشار الاسد کے قائدانہ انداز نے ایک نئے اور امید افزا دور کا آغاز کیا۔
شام میں بحث و مباحثے اور اظہار رائے کی نسبتاً آزادی کا ایک مختصر دور آیا جس کو ’دمشق سپرنگ‘ کا نام دیا گیا تاہم 2001 سے سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر حزب اختلاف کی آواز کو دبانا شروع کیا اور مخالفین کی گرفتاریاں عمل میں آنے لگیں۔
بشار الاسد نے محدود پیمانے پر اقتصادی اصلاحات متعارف کرائیں جنھوں نے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی تاہم ان اصلاحات نے بشار الاسد کے کزن رامی مخلوف جیسے لوگوں کے اثر و رسوخ اور طاقت کو مضبوط کیا۔
مخلوف نے ایک بہت بڑی اقتصادی سلطنت بنائی جسے ناقدین بشار الاسد حکومت کی دولت اور طاقت کے استحکام کی ایک مثال کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دمشق سپرنگ کے اختتام کے بعد بین الاقوامی تعلقات کےایک نئے دور کا آغاز ہوا جو 11 ستمبر 2001 کے حملوں اور اس کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ کی جنگوں کے بعد وجود میں آیا تھا۔