حماس کے سینئر رہنما اسامہ حمدان نے جاری جنگ بندی مذاکرات کو بے معنی قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کے خلاف دانستہ طور پر "بھوک کو ہتھیار” بنا کر استعمال کر رہا ہے، جبکہ یرغمالیوں کے بدلے رعایت کا مطالبہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
حمدان نے ایک ٹی وی بیان میں کہا کہ غزہ میں خوراک، ادویات اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت نے انسانی بحران کو ناقابل برداشت سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ایسے میں جنگ بندی کی بات چیت کھوکھلی ہے جب ہمارے بچوں کو بھوکا مارا جا رہا ہے اور بمباری مسلسل جاری ہے۔”
یہ بیان قطر اور مصر کی ثالثی میں جاری مذاکرات میں ناکامی کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، جن کا مقصد یرغمالیوں کا تبادلہ اور جنگ بندی کا حصول تھا۔ اسرائیل نے غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ حماس کی باقی بٹالین کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ غزہ قحط کے شدید خطرے سے دوچار ہے۔ غذائی قلت، صحت کی سہولیات کا فقدان اور جاری بمباری کی وجہ سے ہزاروں افراد، خاص طور پر بچے، جان کے خطرے سے دوچار ہیں۔
بین الاقوامی امدادی قافلے لڑائی، سیکیورٹی چیکنگ اور راستوں کی بندش کے باعث غزہ تک مکمل رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس شہری انفرا اسٹرکچر کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے، جس سے امدادی کوششیں پیچیدہ ہو رہی ہیں۔