صنعا/واشنگٹن — یمن کی حوثی تحریک نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں شریک ہوا، تو وہ بحیرہ احمر میں امریکی بحری جہازوں اور جنگی بیڑوں پر براہِ راست حملے کرے گی۔ یہ انتباہ اس وقت آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں جاری ایران-اسرائیل تنازعے نے عالمی سطح پر سیکیورٹی خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
ہفتے کے روز جاری کیے گئے ویڈیو بیان میں، حوثی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر یحییٰ ساری نے اعلان کیا کہ”اگر امریکہ اسرائیلی دشمن کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کرتا ہے، تو ہماری مسلح افواج بحیرہ احمر میں امریکی جنگی جہازوں اور تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنائیں گی۔”
یہ بیان ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ یمن کا بحران اب صرف مقامی نہیں رہا بلکہ عالمی جغرافیائی تنازعے کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔
بحیرہ احمر عالمی تجارت کے اہم ترین سمندری راستوں میں سے ایک ہے۔ اس میں خلل کے ممکنہ نتائج درج ذیل ہو سکتے ہیں عالمی سپلائی چین میں شدید رکاوٹ ، تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ اور عالمی تجارتی و سیکیورٹی بحران میں شدت
حوثیوں نے پہلے بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بین الاقوامی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرونز اور بیلسٹک میزائل استعمال کیے ہیں، اور ان حملوں میں ایران کی مبینہ پشت پناہی شامل رہی ہے۔
یہ دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے رواں ماہ کے اوائل میں ایران کی جوہری تنصیبات اور فوجی مقامات پر فضائی حملے کیے ایران نے جواب میں "آپریشن ٹرو پرومیس III” کے تحت اسرائیلی اہداف پر 18 سے زائد میزائل حملے کیے اور امریکہ اس تنازعے میں براہِ راست مداخلت کے امکانات پر غور کر رہا ہے
ایران، حماس، حزب اللہ اور حوثی تحریک — ان سب نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے مختلف طریقوں سے اظہار کیا ہے، اور امریکہ کو خطے میں مداخلت نہ کرنے کی وارننگ دی ہے۔
ابھی تک واشنگٹن نے حوثیوں کے اس تازہ ترین بیان پر کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس پر مشرق وسطیٰ کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے۔