اسلام آباد – اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی عدالت میں کیس میں عدالتی معاونت یا فریق نہیں بنے گی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی سربراہی میں ہونے والی سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور درخواست گزار کے وکیل عمران شفیق پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ”حکومت نے پالیسی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں فریق نہیں بنا جائے گا۔”
اس پر جسٹس اعجاز اسحاق نے سخت ریمارکس دیے”اگر حکومت یا اٹارنی جنرل کوئی فیصلہ کریں تو اس کے پیچھے وجوہات بھی ہونی چاہئیں۔ یہ ایک آئینی عدالت ہے، یہاں ایسا نہیں ہو سکتا کہ صرف فیصلہ سنایا جائے لیکن اس کی وجوہات فراہم نہ کی جائیں۔”
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر یعنی 4 جولائی 2025 کو عدالت کو واضح وجوہات کے ساتھ آگاہ کیا جائے کہ حکومت امریکی عدالت میں فریق کیوں نہیں بننا چاہتی۔
درخواست گزار کے وکیل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی جائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ کن سطحوں پر اٹھایا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2010 میں ایک امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔پاکستانی عوام اور متعدد انسانی حقوق کے ادارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ یہ کیس پاکستان میں ایک قومی جذباتی مسئلہ بن چکا ہے۔